استنبول میں پاکستان اور افغان طالبان حکومت کے درمیان مذاکرات کے دوسرے روز چھ گھنٹے سے زائد طویل نشستوں کے باوجود کوئی قابلِ ذکر پیش رفت سامنے نہیں آئی۔ ذرائع کے مطابق طالبان وفد نے اب تک کسی تحریری ضمانت پر اتفاق نہیں کیا اور کابل و کندھار سے مزید مشاورت کے لیے وقت مانگا ہے۔ اس پیشرفت سے واضح ہوتا ہے کہ مذاکراتی ٹیم کو سیکیورٹی اور انسدادِ دہشت گردی سے متعلق معاملات پر فیصلہ سازی کا مکمل اختیار حاصل نہیں۔
ذرائع کے مطابق پاکستان نے استنبول میں جاری پاک۔افغان مذاکرات میں اپنا حتمی مؤقف پیش کر دیا ہے۔ اسلام آباد نے واضح کر دیا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) جیسے عسکری نیٹ ورکس کی افغان سرپرستی ناقابلِ قبول ہے۔
— HTN Urdu (@htnurdu) October 27, 2025
دو روز طویل مذاکراتی اجلاس کے… pic.twitter.com/i46WKNKSOO
پاکستان کا یک نکاتی ایجنڈا: سیکیورٹی، انسداد دہشت گردی اور قابلِ تصدیق اقدامات
پاکستانی حکام کے مطابق اسلام آباد کا مؤقف بالکل واضح اور اصولی ہے۔ پاکستان نے افغان سرزمین سے سرگرم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے خلاف قابلِ تصدیق کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
سینیئر پاکستانی عہدیدار کے مطابق: “ہماری سلامتی کے خدشات ناقابلِ مفاہمت ہیں۔ تعاون صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب کابل اپنی سرزمین سے دہشت گرد گروہوں کے خلاف عملی اقدام کرے۔”
پاکستان کا مطالبہ: کنٹرول واضح، تصدیق کے قابل اور مؤثر ہو
حکومتی ذرائع نے بتایا کہ پاکستان کے وفد نے مذاکرات میں اپنا بنیادی مؤقف تین نکات میں واضح کیا ہے — کنٹرول مؤثر ہو، تصدیق کے قابل ہو، اور ہر اقدام کا نفاذ یقینی ہو۔ اسلام آباد کا کہنا ہے کہ اگر طالبان حکومت ان اصولی تقاضوں کو تسلیم کرتی ہے تو برادرانہ اور خوشگوار تعلقات کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ تاہم اگر ایسا نہ ہوا تو پاکستان اپنی قومی سلامتی کے تحفظ کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کا حق محفوظ رکھتا ہے۔
ترکی و قطر کا کردار: غیر جانبدار ثالث، کسی فریق کا جھکاؤ نہیں
کالعدم تنظیموں سے منسلک سوشل میڈیا اکاؤنٹس نے پروپیگنڈا کیا کہ ترکی پاکستان کے حق میں جانبدارانہ کردار ادا کر رہا ہے۔ تاہم پاکستانی حکام نے اس تاثر کو سختی سے مسترد کر دیا ہے۔
ذرائع کے مطابق “جس طرح قطر کو ایک غیر جانبدار بروکر سمجھا جاتا ہے، اسی طرح ترکی بھی غیر جانب دار ثالث ہے۔ اگر کوئی یہ تاثر دینے کی کوشش کرے کہ مذاکرات کے فسیلیٹیٹرز کسی ایک جانب جھکے ہوئے ہیں، تو یہ ایک غلط اور معاندانہ بات ہے۔”
افغان وفد کا رویہ: سنجیدگی کا فقدان اور اختیارات کی کمی
پاکستانی ذرائع کا کہنا ہے کہ افغان طالبان کا وفد یا تو مکمل اختیارات کا حامل نہیں یا سنجیدہ تعاون سے گریزاں ہے۔ ان کے مطابق طالبان وفد کا رویہ مذاکراتی عمل میں غیر ضروری پیچیدگیاں پیدا کر رہا ہے، جبکہ ہر مرحلے پر کابل و کندھار سے منظوری لینا عمل کو سست اور غیر یقینی بنا رہا ہے
پاکستان کا واضح پیغام: مذاکرات امن کے لیے، کمزوری نہیں
پاکستانی وفد نے واضح کیا ہے کہ اسلام آباد کا عزم، مورال اور ریاستی طاقت غیر متزلزل ہے۔ کسی کو یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ پاکستان سیاسی، معاشی یا عسکری طور پر کمزور ہے۔ ذرائع کے مطابق “اگر کوئی بدنیتی پر مبنی مہم یا مِس ایڈونچر کی کوشش کرے گا، تو پاکستان مؤثر اور فیصلہ کن جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔”
ممکنہ نتائج: مذاکرات کی ناکامی کا بوجھ طالبان پر ہوگا
سفارتی ماہرین کے مطابق، اگر مذاکراتی عمل میں پیش رفت نہ ہوئی تو اس کی ذمہ داری طالبان وفد کی ہٹ دھرمی پر عائد ہوگی۔
ایچ ٹی این سے گفتگو میں ایک سینئر عہدیدار نے کہا کہ “پاکستان نے مذاکرات میں کشادہ ذہن اور اخلاص سے شرکت کی۔ مقصد صرف یہ ہے کہ افغانستان دہشت گردوں کی پشت پناہی ختم کرے اور پائیدار امن کی طرف بڑھے۔”
امن کی امید، لیکن فاصلہ برقرار
قطر اور ترکی کی ثالثی کے باوجود مذاکرات میں کوئی بڑی پیش رفت نہیں ہو سکی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ فریقین کے درمیان گہرے عدم اعتماد، افغان وفد کے محدود اختیارات، اور دہشت گرد گروہوں کے معاملے پر اختلافات نے عمل کو پیچیدہ بنا دیا ہے۔
پاکستان نے اپنا حتمی مؤقف واضح کر دیا ہے — دہشت گردی کی سرپرستی ناقابلِ قبول ہے، اور قومی مفادات کے تحفظ پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔