ہر سال 10 دسمبر کو عالمی انسانی حقوق کا دن منایا جاتا ہے۔ اس دن کا انتخاب اس لیے کیا گیا کہ 10 دسمبر 1948ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے انسانی حقوق کے آفاقی منشور کو منظور کیا تھا۔ یہ دن دنیا کو یاد دلاتا ہے کہ انصاف، مساوات اور انسانی وقار صرف نعروں میں نہیں بلکہ عملی ترجیحات میں بھی ظاہر ہونا چاہیے۔
تاہم، انسانی حقوق کی اہمیت صرف حقوق کے مطالبے میں نہیں، بلکہ ان کے سیاق و سباق کو سمجھنے میں بھی ہے۔ دنیا آج ایک ایسی بیانیاتی جنگ کا حصہ بن چکی ہے جہاں انسانی حقوق بعض اوقات اصل مقصد نہیں بلکہ سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ پاکستان اسی پیچیدہ حقیقت میں کھڑا ہے۔
افغان مہاجرین کی وطن واپسی، پی ٹی ایم اور بلوچ بیانیہ؛ کیا یہ واقعی انسانی حقوق کی جدوجہد ہے یا انہیں بطور سیاسی ہتھیار استعمال کیا جا رہا ہے؟
گزشتہ برسوں میں پاکستان کے خلاف مخصوص بیانیے بڑے مہارت سے انسانی حقوق کے عنوان کے تحت پیش کیے گئے۔ افغان مہاجرین کی وطن واپسی، پی ٹی ایم کی سرگرمیاں، بلوچ علاقوں میں احتجاجی نیٹ ورکس، یا بیرون ملک چند وکلاء کے گروپس، ہر جگہ مقصد ایک ہی نظر آتا ہے: پاکستان کو بطور ریاست ظالم اور بے حس پیش کرنا۔
یہ حقیقت نظرانداز نہیں کی جا سکتی کہ دہشت گردی کی طویل جنگ کے بعد پاکستان کے سکیورٹی ادارے حساس ہیں۔ ٹی ٹی پی، داعش خراسان، اور علیحدگی پسند گروہوں نے ہزاروں شہریوں اور سکیورٹی اہلکاروں کو نشانہ بنایا۔ ایسے پس منظر میں پاکستان کا کہنا جائز ہے کہ ہر سرگرمی انسانی حقوق کے لیے نہیں ہوتی اور ہر احتجاج حقوق کی جدوجہد نہیں۔ بعض نیٹ ورکس بیرونی سرپرستی کے تحت پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے ماحول میں پاکستان کے تحفظات اٹھانا اس کا حق ہے، جرم نہیں۔
دوسری جانب، فلسطین میں خونریزی، کرفیو زدہ کشمیر، اور بڑی عالمی طاقتوں کی خاموشی انسانی حقوق کے عالمی نظام میں تضاد کی نشاندہی کرتی ہے۔ اگر انسانی حقوق واقعی عالمی اصول ہیں تو فلسطینی بچوں کی زندگیاں بھی یورپ یا امریکہ کے شہریوں کے برابر قیمتی ہونی چاہئیں۔ کشمیر کے باشندوں کی سیاسی آزادی بھی کسی مغربی ملک میں شہری آزادی کے برابر اہم ہونی چاہیے۔ پاکستان ان تضادات پر آواز اٹھا کر عالمی نظام کی اخلاقی کمزوریوں کو واضح کرتا ہے۔
اسی دوران، پاکستان کے اندر بھی انسانی حقوق کے حوالے سے کچھ بنیادی خامیاں موجود ہیں۔ خاص طور پر جبری گمشدگیوں کے کیسز برسوں سے زیر بحث ہیں۔ بعض اوقات ریاستی اداروں اور شہری آزادیوں کے درمیان فرق مبہم ہو جاتا ہے۔ عدالتی اصلاحات، شفاف قانونی نظام، اور شہریوں کو شک کا فائدہ دینے کے اصول پر ابھی بھی کام باقی ہے۔ یہ کمزوریاں دشمنوں کو پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کرنے کا موقع دیتی ہیں اور عالمی فورمز پر پاکستان کو غیر ضروری دفاعی پوزیشن میں لے آتی ہیں۔
انسانی حقوق اور قومی سکیورٹی کو ایک دوسرے کا دشمن بنانے کی ضرورت نہیں۔ پائیدار سکیورٹی کا دارومدار اس بات پر ہے کہ ریاست اپنے شہریوں کا اعتماد رکھے، اور شہری ریاست پر بھروسہ قائم کریں۔ یہی توازن پاکستان کے لیے عالمی برادری میں اپنی بات منوانے کے لیے ضروری ہے۔
پاکستان کا حق ہے کہ وہ دہشت گردی، علیحدگی پسندی اور بیرونی مداخلت کا مقابلہ کرے اور دنیا کے سامنے فلسطین و کشمیر میں مظالم کی تصویر پیش کرے۔ تاہم پاکستان کی ذمہ داری یہ بھی ہے کہ وہ اپنے اندر موجود خامیوں کو دور کرے تاکہ دشمن ان کا فائدہ نہ اٹھا سکے۔
عالمی انسانی حقوق کا دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ حقوق کی بحث کبھی یک رخ نہیں ہوتی۔ اس میں سیاست، سکیورٹی، اخلاقیات اور عالمی طاقتوں کے مفادات سب شامل ہیں۔ پاکستان اگر اپنی سکیورٹی کے جائز خدشات کا دفاع کرتا ہے، عالمی دوہرے معیار کے خلاف آواز بلند کرتا ہے، اور ساتھ ہی اپنے داخلی نظام میں شفافیت لانے کا عزم ظاہر کرتا ہے تو یہی مضبوط، منصفانہ اور محفوظ پاکستان کی طرف لے جانے والا راستہ ہے۔