عسکری ذرائع کا کہنا ہے کہ کارروائی خفیہ معلومات کی بنیاد پر کی گئی اور اس کے نتیجے میں ایک بڑے نیٹ ورک کو شدید دھچکا پہنچا ہے۔

September 14, 2025

کشمیر میں ظلم و زیادتی، اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک، اور پاکستان مخالف کارروائیاں نہ صرف بھارت میں بلکہ فوج کے اندر اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے اہلکاروں کے جذبات کو مجروح کرتی ہیں۔

September 14, 2025

بانی پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پرمواد پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ بھارت سے کوئی شخص اکاؤنٹ چلا رہا ہے

September 14, 2025

واضح رہے کہ وزیراعظم شہباز شریف، آرمی چیف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر اور دیگر اعلیٰ حکام نے شہداء کی نماز جنازہ میں شرکت کی تھی۔

September 14, 2025

ذرائع کا کہنا ہے کہ سب سے نمایاں نام ٹی ٹی پی کی سیاسی کمیشن کے سربراہ مولوی فقیر باجوڑی کے بیٹے مولوی فرید منصور کا ہے،

September 14, 2025

زلمے خلیل زاد سمیت دیگر نے افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی اور ملا عب الغنی برادر اخوند سے ملاقات کی۔

September 14, 2025

افغان طالبان کے چار سالہ دور حکومت: امن، معیشت اور خواتین کے حقوق پر ایک نظر؟

ماہرین کے مطابق افغان سرزمین پر امن و استحکام تو قائم ہوگیا ہے لیکن سفارتی امور اور خواتین پر عائد کردہ پابندیوں پر ملکوں کو شدید تحفظات ہیں۔

1 min read

ماہرین کے مطابق افغان سرزمین پر امن و استحکام تو قائم ہوگیا ہے لیکن سفارتی امور اور خواتین پر عائد کردہ پابندیوں پر ملکوں کو شدید تحفظات ہیں۔

موجودہ افغان حکومت سے قبل خواتین کے لیے حالات بہتر تھے، ہر فورم پر انہیں نماٗندگی دی جاتی تھی یہاں تک کہ صحافت کے میدان میں بھی خواتین موجود تھیں

August 15, 2025

افغانستان: طالبان کو افغانستان کی سطح پر اقتدار کی باگ دوڑ کو سنبھالتے ہوئے آج چار سال مکمل ہورہے ہیں۔ اس موقع پر ماہرین و تحزیہ کار مختلف تجزیے و تبصرے کررہے ہیں۔ صحافت کی دنیا کے ماہرین کا کہنا ہے کہ چار سالہ اقتدار میں افغان طالبان نے جہاں اپنی قابلیت کو ثابت کیا وہیں اپنی سرپرستی میں ایسے اقدامات کیے جنکی وجہ سے افغان حکام تنقید کی زد میں بھی ہیں۔

ماہر سفارتی امور آصف درانی کے مطابق طالبان نے اپنے دورِ حکومت میں امن و استحکام اور ایسے مثبت اقدامات کیے ہیں جنکی سابقہ 46 سالہ دور میں مثال نہیں ملتی۔ ان کے مطابق جنگ زدہ ملک میں امن و امان کا قیام صرف افغان طالبان کے آپس کے اعتماد کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔

یاد رہے آج سے چار سال قبل افغان طالبان کی طویل جدوجہد اور قطر میں طالبان ۔ امریکہ مذاکرات کے نتیجے میں اشرف غنی کے اقتدار کا خاتمہ ہوا تھا اور افغان طالبان اقتدار پر براحمان ہوئے تھے۔

افغان طالبان کے سفارتی تعلقات پر بات کرتے ہوئے انکا کہنا تھا کہ دنیا اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ طالبان حکومت کے ساتھ کیسے روابط استوار کیے جائیں نیز افغانستان کی اب ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات میں نمایاں تبدیلی دیکھنے کو ملی ہے۔ پاکستان، چین اور افغانستان کے مابین اجلاسات و ملاقاتیں جن میں افغان حکومت نے اپنے آپکو سفارتی آداب اور عالمی قوانین کے مطابق پیش کیا اور اسی طرح گذشتہ ماہ روس نے بھی طالبان حکومت کو باقاعدہ تسلیم کیا ہے۔ اور یہی امکان ہے کہ دیگر ممالک بھی جلد افغان ریاست کو باقاعدہ تسلیم کرلیں گے۔

جب ان سے سوال کیا گیا کہ پاکستان نے دلی طور پر اب تک طالبان حکومت کو تسلیم کیوں نہیں کیا تو ان کا کہنا تھا اس کی اہم وجہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان ہے۔ جب افغان عبوری حکومت ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کرے گی تو یہ مسئلہ بھی حل ہو جائے گا۔‘

سابقہ اور موجودہ حکومت میں فرق

آصف درانی کا کہنا تھا اگر دونوں ادوار کا موازنہ کیا جائے تو گذشتہ افغان حکومت کی بنسبت اب افغانستان میں امن ہے۔ ماضی میں آئے روز دہشت گردانہ واقعات ہوتے تھے لیکن اب ایسا نہیں ہے، جوکہ طالبان حکومت کی ایک واضح کامیابی ہے۔

تاہم افغان ریاست کچھ ایسے مسائل کا شکار ہے جو ماضی میں بہت کم تھے۔ مثلاً ایک رپورٹ کے مطابق غربت پہلے سے کافی بڑھ چکی ہے اور اسی طرح افغان حکومت اقتصادی مسائل کا بھی شکار ہے۔

اسی طرح بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے اس وقت افغان سرزمین پر لاقانونیت عروج پر ہے، سرِ عام قانون کی خلاف ورزیاں کی جارہی ہیں۔ اسی طرح جلد از جلد افغان حکام کو پڑوسی ممالک کے تحفظات دور کرنا ہونگے وگرنہ افغانستان اور ہمسایہ ممالک میں مزید دوریاں پیدا ہونگی۔

تحزیہ کاروں نے موجودہ حکومت کی اہم کامیابیوں کا تذکرہ ہوتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اپنے ملک سے کرپشن کا مکمل خاتمہ کیا، گذشتہ دورِ حکومت میں معیشت کا زیادہ تر انحصار بیرونی امداد پر تھا اور کرپشن بھی عروج پر تھی لیکن طالبان نے اقتدار کو سنبھالنے کے بعد اہم کامیابیوں کو عبور کرتے ہوٗے کرپشن کا خاتمہ کیا اور بیرونی امداد پر نظر رکھنے کے بجاٗے خود داری اور ملکی معیشت پر انحصار کیا۔

جہاں طالبان نے بہت سے اقدامات کی وجہ سے سفارتی و عالمی سطح پر اپنے آپکو پُرامن ریاست کے طور پرپیش کیا لیکن افغان حکومت میں کچھ ایسی خامیاں بھی ہیں جن پر افغان حکام کی عدمِ توجہ و لاپرواہی کے سبب پڑوسی ممالک بالخصوص پاکستان و ایران دہشت گردی کا شکار ہوئے اور ان کاروائیوں میں تحریک طالبان پاکستان نے افغان سرزمین کا استعمال کیا، بارہا مرتبہ طالبان کو متوجہ، متنبّہ کیا گیا لیکن افغان حکام نے ہمیشہ کی طرح اس معاملے پر غفلت برتی۔

اسی صورتحال کو دیکھتے ہوئے ماہرین کا کہنا ہے طالبان نے اپنے قریبی ممالک پاکستان اور ایران کے ساتھ تعلقات پر توجہ ہی نہیں دی۔ طالبان نے اپنی تمام تر توجہ اپنی معیشت پر مرکوز کر رکھی تھی۔ افغان حکومت کا یہ فرض بنتا تھا معاشی امور کے ساتھ ساتھ افغانستان میں موجود دہشت گرد عناصر اور ان کےٹھکانوں کے خلاف عملی اقدامات اٹھاتے ہوٗے کارواٗی عمل میں لاٗے۔

انہی وجوہات کی بنا پر افغان طالبان کی اقوام متحدہ میں رکنیت بھی نہیں ہے کیونکہ عالمی برادری نے ابھی تک انہیں کُھل کر تسلیم نہیں کیا۔ جب تک افغان حکومت دہشت گردوں کے خلاف باقاعدہ پالیسی مرتب کرکے انکا خاتمہ نہیں کردیتے تب تک انکی بین الاقوامی فورم پر نماٗندگی ناممکن ہے۔

خواتین کے لیے درپیش مشکلات

ماہرین کا کہنا ہے موجودہ افغان حکومت سے قبل خواتین کے لیے حالات بہت بہتر تھے، ہر فورم پر انہیں نماٗندگی دی جاتی تھی یہاں تک کہ صحافت کے میدان میں بھی خواتین موجود تھیں۔

لیکن موجودہ حکومت کے آنے کے بعد خواتین صحافت تو درکنار کوئی نوکری بھی نہیں کر سکتیں۔ خواتین کے لیے حالات ناسازگار ہیں، جس بنا پر تعلیم یافتہ خواتین یورپ و امریکہ کا رخ کر رہی ہیں۔

نیز گذشتہ دو برسوں کے دوران طالبان حکام نے لڑکیوں سے تعلیم اور ملازمت کا حق بھی واپس لے لیا ہے۔ طالبان نے صحافت کے میدان میں بھی خواتین پر پابندیاں عائد کیں نیز اس دورانیے میں صحافیوں ناحق گرفتاویون میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

نوٹ: اس خبر کیلئے تجزیہ نگاروں کی آرا انڈیپنڈنٹ اردو سے لی گئی ہیں۔

دیکھیں: گزشتہ چار ماہ میں 78 ہزار سے زائد افغان وطن واپس لوٹ گئے

متعلقہ مضامین

عسکری ذرائع کا کہنا ہے کہ کارروائی خفیہ معلومات کی بنیاد پر کی گئی اور اس کے نتیجے میں ایک بڑے نیٹ ورک کو شدید دھچکا پہنچا ہے۔

September 14, 2025

کشمیر میں ظلم و زیادتی، اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک، اور پاکستان مخالف کارروائیاں نہ صرف بھارت میں بلکہ فوج کے اندر اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے اہلکاروں کے جذبات کو مجروح کرتی ہیں۔

September 14, 2025

بانی پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پرمواد پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ بھارت سے کوئی شخص اکاؤنٹ چلا رہا ہے

September 14, 2025

واضح رہے کہ وزیراعظم شہباز شریف، آرمی چیف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر اور دیگر اعلیٰ حکام نے شہداء کی نماز جنازہ میں شرکت کی تھی۔

September 14, 2025

رائے دیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *