اقوام متحدہ کی پروٹوکول اینڈ لائزن سروس نے افغانستان کے سابق صدر اشرف غنی اور سابق وزیر خارجہ محمد حنیف اتمر کے نام اپنی سرکاری فہرست سے نکال دیے ہیں۔ دوسری جانب یہ بھی اہم ہے کہ افغانستان کی اقوام متحدہ کی نشست اب بھی طالبان کے حوالے نہیں کی گئی۔ اس وقت یہ نشست سابق حکومت کے نمائندے نصیر احمد فائق کے پاس ہے جو چارج ڈی افیئر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔
دیکھا جائے تو افغان حکومت کو جزوی سفارتی قبولیت تو مل رہی ہے لیکن عالمی ماہرین کے مطابق مکمل کامیابی اس وقت تک ناممکن ہے جب تک افغان طالبان عالمی قوانین، خواتین و انسانی حقوق کے حوالے سے اپنے فیصلوں پر نطرِ ثانی نہیں کرلیتے۔ واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ فار نیئر ایسٹ پالیسی کے ماہر ایرن زیلین کے مطابق طالبان 1996-2001 کے دور کے مقابلے میں آج تنہائی و ناکامی کا شکار ہیں۔امریکی محقق زیلین کی رپورٹ کے مطابق 2022 میں آٹھ ممالک میں سفارتی مشنز طالبان کے کنٹرول میں تھے۔ نومبر 2023 تک یہ تعداد بڑھ کر 20 ہو گئی جن میں ترکی نے اکتوبر 2023 میں انقرہ میں طالبان کے سفارتکار کو قبول کیا۔
بین الاقوامی روابط میں اضافہ
ماہرین کے مطابق طالبان اور 35 ممالک کے سفارتکاروں کے درمیان 378 عوامی ملاقاتیں ہوئیں، چین نے کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں سب سے زیادہ روابط رکھے، زیادہ تر ملاقاتیں مشرق وسطیٰ کے ممالک کے ساتھ ہوئیں۔ چین، پاکستان، ایران، روس، سعودی عرب، قطر، متحدہ عرب امارات اور جاپان نے کابل میں اپنے سفارت خانے کھولے رکھے ہیں۔
اقوام متحدہ نے واضح کیا ہے کہ طالبان کو عالمی سطح پر تسلیم نہیں کیا گیا اور رکن ممالک کے درمیان اس حوالے سے کوئی اتفاق رائے نہیں ہوا ہے اس لیے موجودہ صورتحال میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کا حالیہ اقدام طالبان کی عالمی سطح پر نمائندگی اور سفارتی حیثیت کو عیاں کرتی ہے کیونکہ کوئی بھی رکن ملک انہیں رسمی طور پر تسلیم کرنے پر متفق نہیں ہوا۔
افغانستان اینالسٹ نیٹ ورک کے مطابق امارتِ اسلامیہ افغانستان اپنے سفارتی مقام اور روابط کے لیے کوشش کر رہی ہے مگر اقوام متحدہ نے اس کی درخواستیں بارہا مرتبہ مسترد کی ہیں۔ دیکھا جائے تو چین نے افغان طالبان کے ساتھ تعلقات تو قائم کیے ہیں لیکن کسی بھی ملک نے انہیں مکمل طور پر تسلیم نہیں کیا۔
اقوام متحدہ کے قوانین اور نمائندگی کی صورتحال
اقوام متحدہ کے قوانین کے مطابق رکن ممالک کے نمائندوں کی فہرست میں تبدیلی یا نظر ثانی تب کی جاتی ہے جب باقاعدہ خط یا درخواست موصول ہو۔ موجودہ صورتحال میں افغانستان کی نمائندگی نصیر احمد فائق کے ذریعے ہو رہی ہے جو نہ سابق حکومت کے نمائندے ہیں اور نہ ہی طالبان کے، بلکہ افغان عوام کے مظلوم گروہوں کی نمائندگی کر رہے ہیں۔
سابق حکومتی رہنماؤں کی حیثیت
اشرف غنی اور حنیف اتمر اب بیرونِ ملک ہیں اور افغانستان کی سابق حکومت کی نمائندگی کا کبھی کبھار دعویٰ کرتے ہیں تاہم اقوام متحدہ نے ان کے نام فہرست سے ہٹا دیے ہیں مگر افغانستان کی نشست برقرار رکھی گئی ہے۔
عالمی ماہرین کے مطابق افغانستان کی اقوام متحدہ میں نمائندگی اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک افغان طالبان عالمی برادری کی ہدایات، بین الاقوامی قوانین، انسانی حقوق کی صورتحال اور خواتین کی تعلیم جیسے اقدامات پر منصفانہ فیصلے نہیں کرتے۔