اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں دہشت گردی پر سیکریٹری جنرل کی 21ویں رپورٹ پر بریفنگ کے دوران پاکستان کے مستقل مندوب نے ایک بھرپور اور دوٹوک خطاب کیا، جس میں پاکستان کی بے مثال قربانیوں، خطے میں بڑھتے خطرات اور عالمی برادری کے دوہرے رویے پر سخت مؤقف اختیار کیا گیا۔
اقوام متحدہ کی مبینہ دوہری پالیسی پر سوالات اٹھاتے ہوئے پاکستانی مندوب نے کہا کہ اقوام متحدہ کی سلامی کونسل کی دہشت گردوں کی فہرست میں تمام افراد مسلمان ہی کیوں ہیں؟ سمجھ سے بالاتر ہے کہ فہرست میں ایک بھی غیر مسلم دہشتگرد موجود نہیں۔
اقوام متحدہ کی سلامی کونسل کی دہشت گردوں کی فہرست میں تمام افراد مسلمان ہی کیوں ہیں؟ سمجھ سے بالاتر ہے کہ فہرست میں ایک بھی غیر مسلم دہشتگرد موجود نہیں۔
— HTN Urdu (@htnurdu) August 21, 2025
پاکستانی مندوب عاصم افتخار کی اقوام متحدہ میں گفتگو۔۔۔!! pic.twitter.com/SmGbOQjkTL
پاکستانی مندوب نے یاد دلایا کہ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں پاکستان نے سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں۔ ’’چند ممالک نے اس جنگ میں پاکستان سے زیادہ کامیابی کے لیے کردار ادا کیا ہوگا، مگر کوئی بھی ملک اتنا نہیں لہو بہایا جتنا پاکستان نے‘‘، انہوں نے کہا۔ ان کے مطابق پاکستان کے 80 ہزار سے زائد شہری جاں بحق ہو چکے ہیں جبکہ سینکڑوں ارب ڈالر کا معاشی نقصان ہوا ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ القاعدہ کے خاتمے میں پاکستان کا کردار مرکزی رہا، اور آج بھی پاکستان داعش اور اس کے علاقائی گروہوں خصوصاً تحریک طالبان پاکستان، بلوچ لبریشن آرمی اور مجید بریگیڈ کے خلاف پرعزم ہے۔ مندوب نے خبردار کیا کہ یہ گروہ افغانستان کی غیر منظم سرزمین استعمال کر کے دوبارہ منظم ہو رہے ہیں، اور پاکستان کے لیے یہ خطرہ فوری اور سنگین ہے۔
پاکستانی مندوب نے ثبوت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ٹی ٹی پی، بی ایل اے اور مجید بریگیڈ پاکستان کے اسٹریٹجک منصوبوں، بنیادی ڈھانچے اور معصوم شہریوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ انہوں نے مارچ میں جافر ایکسپریس کی ہائی جیکنگ، جس میں 31 مسافر جاں بحق ہوئے، اور مئی میں خضدار میں اسکول بس پر حملے، جس میں 10 افراد بشمول 8 بچے شہید ہوئے، کی مثالیں دیں۔
بھارت پر ریاستی دہشت گردی کا الزام لگاتے ہوئے مندوب نے کہا کہ 6 اور 7 مئی کی درمیانی شب بھارت نے پاکستان کی خودمختاری کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہوئے حملہ کیا، جس میں 54 پاکستانی شہری شہید ہوئے، جن میں 15 بچے اور 13 خواتین شامل تھیں۔ ’’جب ریاستی دہشت گردی کو انسدادِ دہشت گردی کا لبادہ پہنایا جائے تو سب سے پہلے عالمی امن خطرے میں پڑتا ہے‘‘، انہوں نے خبردار کیا۔
پاکستانی مندوب نے دہشت گردی کے ڈیجیٹل پہلو پر بھی توجہ دلائی، جہاں سوشل میڈیا، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت کو شدت پسند پروپیگنڈے، بھرتی اور انتہا پسندی پھیلانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ عالمی سطح پر مشترکہ اقدامات، انٹرپول تعاون اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مابین قریبی رابطے ناگزیر ہیں تاکہ دہشت گردوں کے ’’ڈیجیٹل شریانیں‘‘ کاٹ دی جائیں۔
خطاب میں پاکستان نے اقوام متحدہ اور رکن ممالک کے لیے پانچ نکاتی ایجنڈا پیش کیا:
🔸 دہشت گردی کی جڑوں کو ختم کرنے کے لیے طویل المدتی حکمت عملیاں اپنائی جائیں۔
🔸 ریاستی دہشت گردی اور جبر کا خاتمہ کیا جائے، خصوصاً مقبوضہ کشمیر اور فلسطین میں۔
🔸 دہشت گردی اور حق خود ارادیت کی جائز جدوجہد میں فرق واضح رکھا جائے۔
🔸 سلامتی کونسل کی پابندیوں کے نظام کو نئی ابھرتی ہوئی دھمکیوں کے مطابق ڈھالا جائے، اور اسلام کو بدنام کرنے کی کوششیں بند کی جائیں۔
🔸 دہشت گردوں کی ڈیجیٹل سرگرمیوں پر سخت عالمی نگرانی قائم کی جائے۔
اختتامی کلمات میں پاکستانی مندوب نے کہا:
’’موثر انسداد دہشت گردی مشترکہ عمل، اصولی اتفاق رائے اور بین الاقوامی قوانین پر عمل درآمد کے بغیر ممکن نہیں۔ کامیابی صرف اسی وقت ممکن ہے جب ہم دوہرے معیار اور سیاسی مقاصد پر مبنی ایجنڈوں کو مسترد کریں۔‘‘
دیکھیں: پاکستانی نائب مستقل مندوب کا اقوام متحدہ میں بھارتی الزامات پر دو ٹوک مؤقف