شمالی وزیرستان کے علاقے ایاز کوٹ میں سرکاری اسکول پر ہونے والا حالیہ بم دھماکہ ایک سنگین واقعہ ہے، مگر یہ اپنی نوعیت کا پہلا حملہ نہیں بلکہ برسوں سے جاری تعلیم دشمن کارروائیوں کا تسلسل ہے۔ یہ حملہ اس سوچ کی عکاسی کرتا ہے جو بچوں کے ہاتھوں سے کتابیں چھین کر ان کے مستقبل کو تاریک کرنے کی خواہش رکھتی ہے۔
گزشتہ دو دہائیوں میں شدت پسند گروہوں کی کارروائیوں نے واضح کر دیا کہ ان کا سب سے بڑا خوف تعلیم یافتہ نسل ہے، وہ نسل جو دلیل، شعور اور ترقی کی طاقت کو پہچانتی ہو۔ 2007 سے 2014 تک طالبان کی جانب سے لڑکیوں کے اسکولوں کو نذرِ آتش کرنا، اساتذہ پر حملے، اور بالآخر سانحۂ اے پی ایس جیسے واقعات اسی ذہنیت کا تسلسل تھے۔ اگرچہ ضربِ عضب اور خیبر جیسی کارروائیوں نے اس لہر کو کم کیا، مگر افغانستان میں پناہ گاہوں کی بدولت شدت پسند نیٹ ورکس دوبارہ منظم ہونے لگے۔
2025 میں خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ یہ گروہ دوبارہ پرانی حکمتِ عملی آزما رہے ہیں: قبائلی اضلاع کو غیر مستحکم کرنا اور ترقی کے عمل کو روکنا، اور اب ان کا بنیادی ہدف تعلیم ہے کیونکہ یہی وہ قوت ہے جو خوف کے دائروں کو توڑ سکتی ہے۔
پاکستان آرمی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے علاقے کلیئر کیے، اسکول دوبارہ تعمیر کیے، کیڈٹ کالجز اور آرمی پبلک اسکول قائم کیے، اور مقامی نوجوانوں کے لیے اسکالرشپس کا انتظام کیا۔ مگر شدت پسند اسکولوں پر حملہ اس لیے کرتے ہیں کہ ریاست کی بالادستی کو کمزور کریں، عوام کو خوفزدہ کریں، اور قبائل کو سزا دیں جو دہشت گردی کے خلاف کھڑے ہیں۔
ایاز کوٹ کا اسکول دھماکے سے تباہ ہوا، اور یوں 600 بچوں کا مستقبل ایک رات میں منجمد ہو گیا۔ یہ محض ایک عمارت کی تباہی نہیں، بلکہ ایک بہتر مستقبل کے لیے لگایا گیا شجر تھا، جس کی آبیاری کے لیے کئی لوگوں نے قربانی دی تھی۔ مقامی قبائل اب دشمن اور دوست کی پہچان کرنے لگے ہیں، اور اکثر ایسے واقعات کو ٹی ٹی پی یا حافظ گل بہادر گروپ سے جوڑتے ہیں۔
پاکستان کا موقف بالکل واضح ہے: تعلیم دشمن حملے قبائلی اضلاع میں ترقی کے سفر کو روکنے کی وسیع عسکری حکمتِ عملی کا حصہ ہیں، جس کا ایک پہلو سرحد پار موجود پناہ گاہوں سے جڑا ہے، جہاں سے یہ نیٹ ورکس منصوبہ بندی کرتے ہیں اور پاکستان میں امن و استحکام کو چیلنج کرتے ہیں۔
مگر شمالی وزیرستان کے لوگ شکست تسلیم کرنے والے نہیں ہیں۔ ہر دھماکے کے بعد وہ دوبارہ کھڑے ہوتے ہیں، دوبارہ اسکول بناتے ہیں، اور اپنے بچوں کو علم کے چراغ تھماتے ہیں۔ یہی شدت پسندوں کی اصل ناکامی ہے: وہ لوگوں کے عزم کو توڑ نہیں سکے۔
ایاز کوٹ میں ہونے والا حملہ ایک تلخ یاد دہانی ہے کہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی، مگر یہ بھی ایک مضبوط اعلان ہے کہ پاکستان میں تعلیم جاری رہے گی، چاہے دشمن کتنی ہی بار اس چراغ کو بجھانے کی کوشش کرے۔