گزشتہ دو دہائیوں میں شدت پسند گروہوں کی کارروائیوں نے واضح کر دیا کہ ان کا سب سے بڑا خوف تعلیم یافتہ نسل ہے، وہ نسل جو دلیل، شعور اور ترقی کی طاقت کو پہچانتی ہو۔ 2007 سے 2014 تک طالبان کی جانب سے لڑکیوں کے اسکولوں کو نذرِ آتش کرنا، اساتذہ پر حملے، اور بالآخر سانحۂ اے پی ایس جیسے واقعات اسی ذہنیت کا تسلسل تھے۔

December 12, 2025

آئی سی سی پراسیکیوٹر کے یہ بیانات محض اندرونی اختلافات نہیں بلکہ عالمی سطح پر سیاسی اثراندازی کے ایسے شواہد ہیں جو غزہ، اسرائیل اور جنگی جرائم کے مقدمات میں عدالتی عمل کی ساکھ کو براہِ راست چیلنج کرتے ہیں۔

December 12, 2025

نیویارک ٹائمز نے بارڈر پر پھنسے ٹرکوں، بند دوکانوں اور پریشان حال افغان تاجروں کی تصویریں تو نمایاں کیں، مگر یہ سوال کمزور پڑ گیا کہ پاکستان نے آخر بارڈر کنٹرول سخت کیوں کیے؟

December 12, 2025

اجلاس میں پاکستان، چین، روس اور وسطی ایشیائی ریاستوں کی شرکت اس بات کی علامت ہے کہ افغانستان کے مستقبل پر اب خطے کے ممالک براہ راست ذمہ داری سنبھال رہے ہیں اور غیر مغربی دنیا ایک نئی سفارتی حکمت عملی تشکیل دے رہی ہے۔

December 12, 2025

حالیہ عرصے میں ای ٹی آئی ایم/ای ٹی ایل ایف سے وابستہ شدت پسندوں کے ایک ڈرون حملے میں تاجکستان میں چینی ورکرز کو نشانہ بنایا گیا تھا، جس کے بعد بیجنگ نے علاقائی سطح پر ’’ٹرانس نیشنل دہشت گرد نیٹ ورکس‘‘ کی موجودگی اور ان کے بڑھتے خطرے کو غیر معمولی سنجیدگی سے اٹھایا ہے۔

December 12, 2025

عادل راجہ  نے اپنے جرم کو تسلیم کرنے کی بجائے ہٹ دھرمی دکھائی اور زیریں عدالت کے حکم کو ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا، ہائی کورٹ نے عادل راجہ کی سزائیں بڑھا دیں، جرمانہ میں اضافہ کر دیا اور اسے معافی نامے اپنے تمام سوشل میڈیا  پروفائلز پر مسلسل 28 دن تک نمایاں آویزاں رکھنے کا حکم دیا۔

December 12, 2025

قبائلی اضلاع میں تعلیم دشمن حملے اور پاکستانی عوام کا عزم

گزشتہ دو دہائیوں میں شدت پسند گروہوں کی کارروائیوں نے واضح کر دیا کہ ان کا سب سے بڑا خوف تعلیم یافتہ نسل ہے، وہ نسل جو دلیل، شعور اور ترقی کی طاقت کو پہچانتی ہو۔ 2007 سے 2014 تک طالبان کی جانب سے لڑکیوں کے اسکولوں کو نذرِ آتش کرنا، اساتذہ پر حملے، اور بالآخر سانحۂ اے پی ایس جیسے واقعات اسی ذہنیت کا تسلسل تھے۔
قبائلی اضلاع میں تعلیم دشمن حملے اور پاکستانی عوام کا عزم

پاکستان آرمی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے علاقے کلیئر کیے، اسکول دوبارہ تعمیر کیے، کیڈٹ کالجز اور آرمی پبلک اسکول قائم کیے، اور مقامی نوجوانوں کے لیے اسکالرشپس کا انتظام کیا۔

December 12, 2025

شمالی وزیرستان کے علاقے ایاز کوٹ میں سرکاری اسکول پر ہونے والا حالیہ بم دھماکہ ایک سنگین واقعہ ہے، مگر یہ اپنی نوعیت کا پہلا حملہ نہیں بلکہ برسوں سے جاری تعلیم دشمن کارروائیوں کا تسلسل ہے۔ یہ حملہ اس سوچ کی عکاسی کرتا ہے جو بچوں کے ہاتھوں سے کتابیں چھین کر ان کے مستقبل کو تاریک کرنے کی خواہش رکھتی ہے۔

گزشتہ دو دہائیوں میں شدت پسند گروہوں کی کارروائیوں نے واضح کر دیا کہ ان کا سب سے بڑا خوف تعلیم یافتہ نسل ہے، وہ نسل جو دلیل، شعور اور ترقی کی طاقت کو پہچانتی ہو۔ 2007 سے 2014 تک طالبان کی جانب سے لڑکیوں کے اسکولوں کو نذرِ آتش کرنا، اساتذہ پر حملے، اور بالآخر سانحۂ اے پی ایس جیسے واقعات اسی ذہنیت کا تسلسل تھے۔ اگرچہ ضربِ عضب اور خیبر جیسی کارروائیوں نے اس لہر کو کم کیا، مگر افغانستان میں پناہ گاہوں کی بدولت شدت پسند نیٹ ورکس دوبارہ منظم ہونے لگے۔

2025 میں خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ یہ گروہ دوبارہ پرانی حکمتِ عملی آزما رہے ہیں: قبائلی اضلاع کو غیر مستحکم کرنا اور ترقی کے عمل کو روکنا، اور اب ان کا بنیادی ہدف تعلیم ہے کیونکہ یہی وہ قوت ہے جو خوف کے دائروں کو توڑ سکتی ہے۔

پاکستان آرمی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے علاقے کلیئر کیے، اسکول دوبارہ تعمیر کیے، کیڈٹ کالجز اور آرمی پبلک اسکول قائم کیے، اور مقامی نوجوانوں کے لیے اسکالرشپس کا انتظام کیا۔ مگر شدت پسند اسکولوں پر حملہ اس لیے کرتے ہیں کہ ریاست کی بالادستی کو کمزور کریں، عوام کو خوفزدہ کریں، اور قبائل کو سزا دیں جو دہشت گردی کے خلاف کھڑے ہیں۔

ایاز کوٹ کا اسکول دھماکے سے تباہ ہوا، اور یوں 600 بچوں کا مستقبل ایک رات میں منجمد ہو گیا۔ یہ محض ایک عمارت کی تباہی نہیں، بلکہ ایک بہتر مستقبل کے لیے لگایا گیا شجر تھا، جس کی آبیاری کے لیے کئی لوگوں نے قربانی دی تھی۔ مقامی قبائل اب دشمن اور دوست کی پہچان کرنے لگے ہیں، اور اکثر ایسے واقعات کو ٹی ٹی پی یا حافظ گل بہادر گروپ سے جوڑتے ہیں۔

پاکستان کا موقف بالکل واضح ہے: تعلیم دشمن حملے قبائلی اضلاع میں ترقی کے سفر کو روکنے کی وسیع عسکری حکمتِ عملی کا حصہ ہیں، جس کا ایک پہلو سرحد پار موجود پناہ گاہوں سے جڑا ہے، جہاں سے یہ نیٹ ورکس منصوبہ بندی کرتے ہیں اور پاکستان میں امن و استحکام کو چیلنج کرتے ہیں۔

مگر شمالی وزیرستان کے لوگ شکست تسلیم کرنے والے نہیں ہیں۔ ہر دھماکے کے بعد وہ دوبارہ کھڑے ہوتے ہیں، دوبارہ اسکول بناتے ہیں، اور اپنے بچوں کو علم کے چراغ تھماتے ہیں۔ یہی شدت پسندوں کی اصل ناکامی ہے: وہ لوگوں کے عزم کو توڑ نہیں سکے۔

ایاز کوٹ میں ہونے والا حملہ ایک تلخ یاد دہانی ہے کہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی، مگر یہ بھی ایک مضبوط اعلان ہے کہ پاکستان میں تعلیم جاری رہے گی، چاہے دشمن کتنی ہی بار اس چراغ کو بجھانے کی کوشش کرے۔

متعلقہ مضامین

آئی سی سی پراسیکیوٹر کے یہ بیانات محض اندرونی اختلافات نہیں بلکہ عالمی سطح پر سیاسی اثراندازی کے ایسے شواہد ہیں جو غزہ، اسرائیل اور جنگی جرائم کے مقدمات میں عدالتی عمل کی ساکھ کو براہِ راست چیلنج کرتے ہیں۔

December 12, 2025

نیویارک ٹائمز نے بارڈر پر پھنسے ٹرکوں، بند دوکانوں اور پریشان حال افغان تاجروں کی تصویریں تو نمایاں کیں، مگر یہ سوال کمزور پڑ گیا کہ پاکستان نے آخر بارڈر کنٹرول سخت کیوں کیے؟

December 12, 2025

اجلاس میں پاکستان، چین، روس اور وسطی ایشیائی ریاستوں کی شرکت اس بات کی علامت ہے کہ افغانستان کے مستقبل پر اب خطے کے ممالک براہ راست ذمہ داری سنبھال رہے ہیں اور غیر مغربی دنیا ایک نئی سفارتی حکمت عملی تشکیل دے رہی ہے۔

December 12, 2025

حالیہ عرصے میں ای ٹی آئی ایم/ای ٹی ایل ایف سے وابستہ شدت پسندوں کے ایک ڈرون حملے میں تاجکستان میں چینی ورکرز کو نشانہ بنایا گیا تھا، جس کے بعد بیجنگ نے علاقائی سطح پر ’’ٹرانس نیشنل دہشت گرد نیٹ ورکس‘‘ کی موجودگی اور ان کے بڑھتے خطرے کو غیر معمولی سنجیدگی سے اٹھایا ہے۔

December 12, 2025

رائے دیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *