کوئٹہ – 22 اپریل 2025: بلوچستان حکومت نے دہشت گردی کے الزامات کے تحت حراست میں لی گئی مہرنگ بلوچ کی نظربندی میں مزید 30 دن کی توسیع کر دی ہے۔ دریں اثناء، ان کے وکیل عمران بلوچ نے اس توسیع کی تصدیق کرتے ہوئے اس اقدام کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور اسے سیاسی بنیادوں پر مبنی قرار دیا۔
32 سالہ مہرنگ بلوچ بلوچ یکجہتی کمیٹی (BYC) کی نمایاں رہنما ہیں، جنہیں 22 مارچ کو گرفتار کیا گیا تھا۔ انہیں کوئٹہ میں ایک پرامن دھرنے میں شرکت کے بعد حراست میں لیا گیا، جہاں مظاہرین نے بی وائی سی کے زیر حراست اراکین کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔
ان کے قانونی نمائندے کے مطابق ابتدائی 30 روزہ نظربندی کی مدت ختم ہونے والی تھی جب حکام نے ایک نیا نوٹیفکیشن جاری کیا۔ عمران بلوچ نے کہا، “حکومت نے انہیں مزید 30 دن کے لیے حراست میں رکھنے کا حکم دیا ہے۔”
حکام نے ان پر سنگین الزامات عائد کیے ہیں جن میں “دہشت گردی”، “بغاوت”، اور “قتل” شامل ہیں، حالانکہ ابھی تک کوئی ثبوت منظر عام پر نہیں لایا گیا۔ انسانی حقوق کے کارکنوں نے اس اقدام کو بلوچستان میں اختلاف رائے اور احتجاج کو دبانے کی کوشش قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔
مہرنگ بلوچ کی نظربندی میں توسیع کو سول سوسائٹی اور سیاسی مبصرین کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی گرفتاری بلوچ عوام کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والوں کو دبانے کی کوشش ہے۔
دریں اثناء، ان کے حامی ان کی فوری رہائی کا مطالبہ کر رہے ہیں اور حکومت سے تمام الزامات ختم کرنے کی اپیل کر رہے ہیں۔ بی وائی سی کے اراکین کا کہنا ہے کہ پرامن احتجاج آئینی حق ہے اور کارکنوں کو نشانہ بنانا صوبے میں ناانصافی کے احساس کو مزید گہرا کرتا ہے۔
قانونی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ بغیر مقدمہ کے طویل نظربندی قانون کی حکمرانی کو نقصان پہنچاتی ہے۔ صورتحال کشیدہ ہے کیونکہ بلوچستان بھر میں مہرنگ بلوچ سے اظہار یکجہتی کے لیے احتجاج میں شدت آنے کی توقع ہے۔
ڈس کلیمر: یہ خبر مستند ذرائع اور میڈیا رپورٹس کی بنیاد پر تصدیق شدہ اور قابل اعتماد ہے۔