برطانیہ میں ایک حالیہ سماجی میڈیا مہم کے ذریعے ایک کیس کو دوبارہ اچھالا جا رہا ہے جس میں ابرار حسین اور اس کے ساتھیوں کو بچوں کے ساتھ زیادتی کے جرم میں سزا سنائی گئی تھی۔ اس کیس کے فیصلے جنوری 2025 میں ہو چکے تھے اور سزا بعد میں 10 سے 11 سال تک بڑھا دی گئی تھی۔
تاہم اس معاملے کو دوبارہ اٹھا کر نسلی بنیاد پر پاکستانی کمیونٹی کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس پروپیگنڈا میں جرم کے بجائے نسل اور قومیت کو نمایاں کیا جا رہا ہے تاکہ مخصوص بیانیہ پھیلایا جا سکے۔
The Rape of Britain: Pakistani thug Ibrar Hussain locked a 13-year-old girl in his filthy basement, a living nightmare straight out of hell.
— Ian Miles Cheong (@stillgray) August 30, 2025
This savage forced her into a heroin haze, then brutalized her with rape for an entire month, shattering her innocence with every vile… https://t.co/rjgsetgoJO pic.twitter.com/VUqEByx7Ra
نسلی تعصب یا عدالتی انصاف؟
قانونی طور پر ہر مجرم کو سزا ملنی چاہیے، لیکن جرم کو مخصوص کمیونٹی یا قومیت سے جوڑنا اصل مسئلے کو چھپا دیتا ہے۔ برطانیہ کی نیشنل پولیس چیفس کونسل کے مطابق ملک میں بچوں کے ساتھ جنسی استحصال کے بیشتر ملزم سفید فام ہیں، جبکہ پاکستانی صرف 2.7 سے 3.9 فیصد کیسز میں شامل ہیں۔
میڈیا بیانیہ اور تضاد
یوکے منسٹری آف جسٹس کے 2022 کے اعدادوشمار کے مطابق بچوں سے زیادتی کے 88 فیصد ملزمان سفید فام تھے۔ تاہم میڈیا زیادہ تر پاکستانی نژاد افراد کے کیسز کو اجاگر کرتا ہے اور اسے اسلاموفوبیا کے مقاصد کیلئے استعمال کرتا ہے۔ دوسری طرف، حالیہ مثال اسرائیلی سائبر اہلکار “گل ناگر” کی ہے جو امریکہ میں اسی جرم میں پکڑا گیا مگر خبر کو نسلی بنیاد پر نہیں پیش کیا گیا۔ یہ دوہرا معیار واضح ہے۔
اصل مسئلہ کیا ہے؟
کیسی آڈٹ رپورٹ (جون 2025) کے مطابق زیادہ تر کیسز میں نسل اور قومیت کا ریکارڈ ہی موجود نہیں، اس لیے عمومی الزامات گمراہ کن ہیں۔ اصل بحران نظام کی ناکامی ہے جو بچوں کو تحفظ دینے میں ناکام رہا۔ پاکستانی کمیونٹی کو نشانہ بنانے کی بجائے مسئلے کی جڑ پر توجہ دینا ضروری ہے۔
بچوں کے تحفظ اور انصاف کے لیے ضروری ہے کہ جرم کو جرم کے طور پر دیکھا جائے، نہ کہ نسل کے تناظر میں فیصلے کیے جائیں۔
دیکھیں: مفتی کفایت اللہ کا متنازعہ مؤقف اور پشتون حقوق کا بیانیہ