ڈارک ویب پر سرگرم ایک ہیکر نے بھارت کی خفیہ ایجنسی ریسرچ اینڈ اینالسس وِنگ اور خیبر پختونخوا میں عسکریت پسندوں کے ساتھ مبینہ روابط پر مشتمل دستاویزات کے دعوے نے ملکی سیاسی اور سیکیورٹی حلقوں میں ہلچل پیدا کردی ہے۔ ہیکر نے ان مبینہ خفیہ کاغذات کے عوض 500,000 بٹ کوائن کا مطالبہ کیا ہے، جو اربوں روپے کے برابر بنتا ہے۔
دعوے اور ابتدائی دستاویزات
ہیکر کے مطابق مکمل مواد جاری کرنے سے قبل چند نمونے بطور ثبوت لیک کیے جائیں گے تاکہ ان کی صداقت کی تصدیق ہوسکے۔ جاری کردہ پہلی دستاویز میں مبینہ طور پر خیبر پختونخوا کے ایک سیاسی رہنما کے را کے ساتھ روابط کا ذکر کیا گیا ہے۔
پی ٹی آئی رہنما پر سنگین الزامات
ان دستاویزات میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے تعلق رکھنے والے سابق رکنِ قومی اسمبلی اقبال آفریدی کا نام لیا گیا ہے۔ دعویٰ کیا گیا ہے کہ وہ مبینہ طور پر را کے اہلکاروں کے ساتھ رابطے میں رہے اور انہوں نے عسکریت پسند گروہوں کی نقل و حرکت اور سرگرمیوں میں سہولت فراہم کی۔ مزید کہا گیا ہے کہ انہوں نے ایسے نیٹ ورک تشکیل دیے جو خطے میں حملوں کے لیے معاون ثابت ہوئے۔ تاہم ان دعوؤں کی آزادانہ تصدیق تاحال نہیں ہوسکی۔
اقبال آفریدی کی تردید
ان تمام تر الزامات کے جواب میں اقبال آفریدی نے نمائندہ ایچ ٹی این سے گفتگو کی اور الزامات کو سختی سے مسترد کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ الزامات سراسر بے بنیاد ہیں اور ان کی کردار کشی کیلئے ان کو پھیلایا جا رہا ہے۔
بڑے پیمانے کا مطالبہ
ہیکر نے 500,000 بٹ کوائن کا مطالبہ کیا ہے، جو کہ تاریخ کے مہنگے ترین سائبر تاوانی مطالبات میں شمار کیا جارہا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس قدر بھاری رقم کا تقاضا بعض اوقات محض توجہ حاصل کرنے اور دباؤ بڑھانے کے لیے بھی کیا جاتا ہے۔ تاہم، اس کے باوجود یہ دعویٰ حساسیت کے اعتبار سے پاکستان کے لیے غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔
سیکیورٹی اور سیاسی اثرات
خیبر پختونخوا میں حالیہ برسوں کے دوران تحریک طالبان پاکستان اور دیگر گروہوں کی کارروائیاں پہلے ہی پاکستان کے لیے ایک بڑا چیلنج رہی ہیں۔ ایسے میں ایک سیاسی شخصیت پر غیر ملکی خفیہ ایجنسی کے ساتھ روابط کے الزامات نہ صرف سیاسی کشیدگی بڑھا سکتے ہیں بلکہ عوامی اعتماد کو بھی متاثر کر سکتے ہیں۔ مبصرین کے مطابق اگرچہ یہ الزامات ابھی غیر مصدقہ ہیں، لیکن یہ بحث یقینی طور پر پارلیمان، میڈیا اور عوامی سطح پر شدت اختیار کرے گی۔
پاکستان کا مؤقف اور خطے کا پس منظر
پاکستان پہلے ہی بارہا بھارت کی خفیہ ایجنسی را پر بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کی سرپرستی کے الزامات لگا چکا ہے۔ اسلام آباد کا مؤقف رہا ہے کہ بھارت پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے براہِ راست عسکریت پسند گروہوں کی معاونت کرتا ہے، جبکہ نئی دہلی ان الزامات کی سختی سے تردید کرتی ہے۔ اس پس منظر میں نئی لیکس کو پاکستان کی سیاسی اور سیکیورٹی ڈسکورس میں ایک نیا موڑ تصور کیا جارہا ہے۔
ڈارک ویب کا کردار
ڈارک ویب ایسے پلیٹ فارمز کا مجموعہ ہے جہاں اکثر خفیہ یا غیر قانونی مواد خریدا اور بیچا جاتا ہے۔ ریاستی سطح کے حساس مواد کی فروخت یا لیکس کے واقعات پہلے بھی سامنے آچکے ہیں، لیکن ان کی تصدیق ہمیشہ مشکل ثابت ہوئی ہے۔ موجودہ واقعہ اس حقیقت کو ایک بار پھر اجاگر کرتا ہے کہ سائبر وار فیئر اور انٹیلی جنس لیکس خطے کی سلامتی کو براہِ راست متاثر کرنے والے عوامل بنتے جارہے ہیں۔
آگے کیا ہوگا؟
ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ ہیکر کے پاس موجود مواد واقعی مستند ہے یا محض دباؤ ڈالنے کی ایک حکمتِ عملی ہے۔ تاہم، پاکستانی سیکیورٹی ادارے متوقع طور پر اس معاملے کی فوری تحقیقات کریں گے۔ کسی سیاسی رہنما کو براہِ راست را کے ساتھ جوڑنے کا الزام اگر سچ ثابت ہوا تو یہ ملکی سیاست کے لیے سنگین نتائج کا حامل ہوگا۔
ڈارک ویب پر سامنے آنے والا یہ دعویٰ اس بات کی علامت ہے کہ پاکستان جیسے حساس خطے میں سائبر اسپیس نئی جنگ کا میدان بن چکی ہے۔ اس معاملے نے ایک بار پھر سوال اٹھایا ہے کہ آیا پاکستان کی سیاسی اور سیکیورٹی ادارے اس ابھرتے ہوئے خطرے کو کس طرح سنبھالیں گے۔ فی الحال، یہ ایک غیر مصدقہ لیکن انتہائی سنجیدہ معاملہ ہے، جو آنے والے دنوں میں ملکی سیاست اور سیکیورٹی بیانیے پر گہرے اثرات ڈال سکتا ہے۔
دیکھیں: پی ٹی آئی رہنما اسد قیصر نے مریم نواز کے بیان پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے الیکشن کا چیلنج دے دیا
 
								 
								 
								 
								 
								 
								 
								 
															