افغان میڈیا اور حکام کے مطابق خوست اور ننگرہار صوبوں میں ہونے والے نامعلوم ڈرون حملوں کے نتیجے میں متعدد ہلاکتیں اور زخمی رپورٹ ہوئے۔ حملوں کی ذمہ داری تاحال کسی گروپ یا ریاست نے قبول نہیں کی، تاہم افغان حکام نے فوری طور پر پاکستان پر الزام عائد کیا۔ کابل میں پاکستانی ناظم الامور کو وزارت خارجہ میں طلب کر کے احتجاج ریکارڈ کرایا گیا اور افغان وزارت دفاع نے سرکاری بیان جاری کرتے ہوئے اسے پاکستان کی کارروائی قرار دیا۔
پاکستان کا موقف اور مسلسل الزامات
پاکستانی حکام نے ان الزامات پر اگرچہ کوئی باضابطہ بیان جای نہیں کیا تاہم اس سے قبل ایسے الزامات کو حکام بلاجواز اور یکطرفہ قرار دیتے ہوئے کہتے آئے ہیں کہ افغانستان بارہا بغیر شواہد کے پاکستان کو نشانہ بناتا ہے۔ اسلام آباد کے مطابق حالیہ دنوں میں دہشت گردی کی لہر افغان سرزمین سے منسلک ہے، جس کے نتیجے میں بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں کئی حملے ہوئے۔ پاکستانی ذرائع کے مطابق گزشتہ دنوں بلوچستان میں 66 ٹی ٹی پی دہشت گرد، جو افغان باشندے تھے، مارے گئے۔ اس کے باوجود افغان حکومت مسلسل پاکستان پر الزام تراشی کر رہی ہے۔
خلیجی ممالک کی امداد اور بدعنوانی کے الزامات
خطے کی بدلتی ہوئی صورتحال میں ایک اور اہم پہلو یہ سامنے آیا کہ بعض خلیجی ممالک نے ٹی ٹی پی کی مبینہ آباد کاری کے لئے دی جانے والی مالی امداد کو بدعنوانی اور غلط استعمال کے الزامات کے بعد معطل کر دیا ہے۔ سفارتی ذرائع کے مطابق یہ امداد افغان سرزمین پر مخصوص گروہوں کو منظم کرنے کے لئے دی گئی تھی، تاہم شفافیت نہ ہونے کے باعث یہ سلسلہ روک دیا گیا ہے۔ اس فیصلے کو خطے میں شدت پسندی کے مالی ڈھانچے پر ایک بڑا دھچکا قرار دیا جا رہا ہے۔ پاکستان، جو کہ ایسی ہی امداد افغانستان کو دینے کا ارادہ رکھتا تھا، اب اس حوالے سے سوچنے پر مجبور ہو گیا ہے۔
افغان سرزمین کا دہشت گردی کیلئے استعمال اور پاکستان کی تشویش
پاکستان نے بارہا اس موقف کو دہرایا ہے کہ افغان سرزمین دہشت گردی کے لئے استعمال ہو رہی ہے۔ 2023 اور 2024 کے دوران پاکستان میں ہونے والے دہشت گرد حملوں کے حوالے سے نیکٹا اور دیگر اداروں کی رپورٹس میں واضح کیا گیا کہ زیادہ تر حملہ آور افغانستان سے آئے یا وہاں تربیت یافتہ تھے۔ اسی تناظر میں پاکستان نے افغان حکومت کو بارہا یقین دہانیوں اور وعدوں کے باوجود زمینی حقائق تبدیل نہ ہونے پر سخت احتجاج ریکارڈ کرایا۔
سفارتی مضمرات اور آئندہ لائحہ عمل
خوست اور ننگرہار میں ہونے والے حالیہ حملے اور اس کے بعد کی الزام تراشی نہ صرف بہتر ہوتے پاک افغان تعلقات کو دوبارہ کشیدہ کر رہی ہے بلکہ خطے میں امن اور تعاون پر بھی سوالیہ نشان لگا رہی ہے۔ مبصرین کے مطابق اگر افغان حکومت یکطرفہ بیانیہ جاری رکھتی ہے اور پاکستان کے تحفظات کو نظرانداز کرتی ہے تو دونوں ملکوں کے تعلقات دوبارہ تناؤ کا شکار ہوں گے۔
پاکستانی حکام کا ماننا ہے کہ دونوں ممالک کو الزام تراشی کے بجائے باہمی تعاون کو فروغ دینا ہوگا تاکہ دہشت گردی جیسے سنگین مسئلے کا مستقل حل نکالا جا سکے۔ بصورت دیگر یہ تنازع نہ صرف دونوں ملکوں کی سلامتی بلکہ خطے کی مجموعی استحکام کو بھی متاثر کرے گا۔
دیکھیں: خوست اور ننگرہار میں حملے، افغان حکام نے پاکستان پر الزام عائد کر دیا