برطانوی اخبار دی ٹیلی گراف میں ایک مضمون شائع کیا ہوا جس میں پاکستانی نژاد برادری پر گروہی جنسی جرائم (گروومنگ گینگز) کے سنگین الزامات عائد کیے ہیں، تاہم ٹیلی گراف کا دعوی اور سرکاری اعداد و شمار متضاد نظر آرہے ہیں۔
ٹیلی گراف کے مضمون میں دعویٰ کیا گیا کہ انگلینڈ اور ویلز میں بچوں کے خلاف گروہی جنسی جرائم میں ملوث زیادہ تر پاکستانی مسلمان ہیں اور انہیں ایشین قرار دے کر چھپایا جا رہا ہے۔ مضمون میں یہ کہا گیا کہ سیاسی وابستگیوں نے ان جرائم کو عرصۂ دراز تک سامنے لانے سے روکے رکھا۔

سرکاری اعداد و شمار
دیکھا جائے تو برطانوی حکام کے 2023 کے اعداد و شمار اس دعوے کو مسترد کرتے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق انگلینڈ اور ویلز میں گزشتہ سال بچوں کے خلاف گروہی جنسی جرائم کے 717 واقعات رپورٹ ہوئے جن میں سے 224 ملزمان سفید فام تھے، جبکہ 22 مشتبہ افراد پاکستانی نژاد تھے۔
تقریباً 70 فیصد ملزمان سفید فام تھے، جبکہ پاکستانی نژاد محض 6.9 فیصد تھے۔
حکام کا مؤقف ہے کہ کسی ایک مخصوص نسل یا قومیت کو اجتماعی طور پر مورد الزام ٹھہرانا قطعاً درست نہیں ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا ردعمل
ماہرینِ سماجیات اور انسانی حقوق کے کارکنان نے ٹیلی گراف کے متنازعہ مضمون پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستانیوں کو گروومنگ گینگز سے جوڑنا لاکھوں قانون پسند، مزدور اور معصوم پاکستانیوں کے خلاف تعصب کی فضا بنانے کی سازش ہے۔ اس موقع پر ماہرین کا کہنا ہے مذکورہ جرائم کو کسی قوم یا مذہب سے جوڑنا دراصل اصل مجرموں سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے۔ اور چند افراد کے جُرم کی وجہ سے پورے قوم، قبیلے کو موردِ الزام ٹھہرانا بھی ناانصافی ہے۔
ماہرین نے یہ بھی کہا ہے کہ ٹیلی گراف جیسے معتبر اخبار کو ایسے متنازعہ اور بے بنیاد خبر شائع کرنے سے پہلے اپنی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے تحقیق کرنی چاہیے۔ تاکہ کسی بھی مذہب اور قوم کو بلاوجہ بدنام نہ کیا جائے۔
دیکھیں: برطانیہ میں بلوچ نیشنل موومنٹ کا پاکستان مخالف پروپیگنڈا بے نقاب