بلوچستان کے ضلع چمن کی سرحد پر جمعے کی شب پاکستانی اور افغان فورسز کے درمیان شدید فائرنگ ہوئی، جس کے بعد دونوں جانب سے ایک دوسرے پر جنگ بندی کی خلاف ورزی کے الزامات عائد کیے گئے۔ افغان حکام کے مطابق اس جھڑپ میں ان کے چار اہلکار زخمی ہوئے، جبکہ چمن کے ہسپتال ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستانی جانب تین افراد زخمی ہوئے ہیں۔ صورتحال کے پیش نظر حالات کشیدہ ہوگئے ہیں۔
افغانستان کی جانب سے فائرنگ کا آغاز
ایک مقامی پاکستانی پولیس اہلکار محمد صادق کا کہنا تھا کہ فائرنگ افغانستان کی جانب سے شروع ہوئی، جس پر پاکستانی دستوں نے جوابی فائرنگ کی۔ سرحدی گزرگاہ کے قریب یہ واقعہ پیش آیا، جو کہ دونوں ممالک کے درمیان اہم تجارتی راستہ بھی ہے۔ دوسری جانب افغانستان کی حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ جھڑپ کا آغاز پاکستان نے کیا، اور افغان بارڈر پولیس نے پاکستانی فائرنگ کا جواب دیا۔
پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف کے ترجمان مشرف زیدی نے ایکس پوسٹ پر کہا کہ ’’افغان طالبان حکومت نے چمن سرحد کے ساتھ بلا اشتعال فائرنگ کی،‘‘ جس کے جواب میں پاکستانی مسلح افواج نے ’’پُر شدت اور فوری ردِعمل‘‘ دیا۔ انہوں نے تاکید کی کہ پاکستان اپنی سرحدی خودمختاری اور شہری سلامتی کے تحفظ کے لیے پرعزم ہے۔
A short while ago, the Afghan Taliban regime resorted to unprovoked firing along the Chaman border. An immediate, befitting & intense response has been given by our armed forces. Pakistan remains fully alert & committed to ensuring its territorial integrity & the safety our…
— Mosharraf Zaidi 🇵🇰 (@mosharrafzaidi) December 5, 2025
افغان بارڈر پولیس کے ترجمان عبد اللہ فاروقی نے دعویٰ کیا کہ پاکستانی فورسز نے پہلے سپن بولدک کے سرحدی علاقے میں بم پھینکا، جس کے بعد افغان فورسز کو جواب دینا پڑا۔
فائرنگ کا تبادلہ رات تقریباً 10:30 بجے مقامی وقت پر شروع ہوا اور دو گھنٹے جاری رہا۔ افغان ذرائع نے بتایا کہ پاکستانی فورسز نے ’’ہلکے اور بھاری توپ خانے‘‘ استعمال کیے اور مارٹر گولے بھی فائر کیے۔
متاثرہ شہری اور طبی امداد
چمن کے ضلعی ہیڈکوارٹر ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کے مطابق تین زخمی شہری طبی امداد کے بعد فارغ کیے گئے۔ افغان صوبہ قندھار کے گورنر کے بیان کے مطابق جھڑپ کے دوران چار اہلکار زخمی ہو گئے۔
پسِ منظر: گزشتہ جھڑپیں اور کشیدگی
یہ جھڑپ اس تنازع کی تازہ کڑی ہے، جو اکتوبر میں افغان دارالحکومت کابل میں بم بم دھماکوں کے بعد شروع ہوئی۔ افغان حکومت نے ان دھماکوں کا الزام پاکستان پر عائد کیا، جبکہ اسلام آباد نے طالبان حکومت کو مطالبہ دیا کہ وہ کالعدم تنظیموں کو اپنی سرزمین پر پناہ نہ دیں۔
قطر کی ثالثی سے جنگ بندی ممکن ہوئی تھی، تاہم امن مذاکرات استنبول میں بے نتیجہ رہے، اور سرحدی جھڑپیں دوبارہ شروع ہوگئیں۔ اس پسِ منظر میں چمن سیکٹر کی تازہ فائرنگ نے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی دوبارہ عروج پر پہنچا دی ہے۔
امدادی اقدامات اور سرحدی انتظامات
بروقت طبی امداد کے لیے پروونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی بلوچستان نے ضلع چمن کے لیے پانچ ایمبولینسیں اور ریسکیو ٹیمیں روانہ کی ہیں۔ ریسکیو ٹیمیں اور ایمرجنسی ریسپانڈرز ہائی الرٹ پر ہیں تاکہ کسی بھی ناخوشگوار واقعے کی صورت میں فوری مدد کو یقینی بنایا جا سکے۔
علاقائی امن اور رویہ
پاکستانی ذرائع کا کہنا ہے کہ چمن سیکٹر پر افغان طالبان کی یک طرفہ فائرنگ سرحدی استحکام اور علاقائی امن کے لیے نہایت خطرناک ہے۔ اس واقعے نے اس بات کو اجاگر کیا ہے کہ کابل انتظامیہ کو اپنے بے لگام سرحدی اہلکاروں کو کنٹرول کرنے کی اشد ضرورت ہے، کیونکہ ایسے اقدامات افغانستان کی عالمی ساکھ کو بھی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
دوسری جانب پاکستان کی مسلح افواج نے متوازن اور ذمہ دارانہ ردِعمل کا دعویٰ کیا ہے، اور واضح کیا ہے کہ سرحدی خودمختاری اور شہری سلامتی کی خلاف ورزی کسی بھی صورت میں برداشت نہیں کی جائے گی۔