انڈیا کے ڈپٹی چیف آف آرمی سٹاف لیفٹیننٹ جنرل راہول سنگھ نے دعویٰ کیا ہے کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان ہونے والی چار روزہ لڑائی کے دوران اسے ایک سرحد پر پاکستان کے علاوہ چین اور ترکی کا بھی سامنا تھا اور چین پاکستان کو انڈیا کی عسکری تنصیبات کے حوالے سے لائیو معلومات فراہم کر رہا تھا۔ صارفین اور ماہرین ان کے الفاظ اور لہجے کو برملا شکست کا اعتراف کرنے کے مترادف تشبیہ دے رہے ہیں۔
جمعے کو فیڈریشن آف انڈین چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے زیرِاہتمام ‘نیو ایج ملٹری ٹیکنالوجیز’ کے عنوان سے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ انڈین فوج نے آپریشن سندور کے دوران کون سے سبق سیکھے۔
انڈیا کے ڈپٹی چیف لیفٹیننٹ جنرل راہل سنگھ نے کھلے لفظوں میں شکست تسلیم کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان ہونے والی 4 روزہ لڑائی کے دوران اسے سرحد پر پاکستان کے علاوہ چین اور ترکی کا بھی سامنا تھا چین پاکستان کو انڈیا کے حوالے سے لائیو معلومات فراہم کر رہا تھا۔ pic.twitter.com/MYoYust9Bs
— HTN Urdu (@htnurdu) July 5, 2025
انھوں نے کہا کہ ‘پہلا تو یہ کہ ایک سرحد تھی لیکن دشمن دو بلکہ اگر میں کہوں تین تو غلط نہیں ہو گا۔ پاکستان سامنے تھا اور چین اسے تمام ممکنہ مدد فراہم کر رہا تھا اور یہ زیادہ اچھنبے کی بات نہیں ہے کیونکہ اگر آپ اعداد و شمار پر نظر دوڑائیں تو گذشتہ پانچ سالوں میں 81 فیصد اسلحہ اور آلات جو پاکستان کو ملا ہے وہ سب چینی ساختہ تھے۔’
ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘ترکی نے بھی پاکستان کو مدد فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کیا، بیراکتر ڈرون وہ پہلے ہی دے رہے تھے لیکن اس کے علاوہ بھی ڈرونز جنگ کے دوران نظر آئے، اور ان کے ساتھ ماہر افراد بھی موجود تھے۔’
اس کے بعد جو سبق ہم نے سیکھا وہ ‘سی 4 آئی ایس آر اور سول ملٹری فیوژن کے حوالے سے تھا۔ اس حوالے سے ہمیں بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے‘
خیال رہے کہ سی 4 آئی ایس آر سے مراد کمانڈ، کنٹرول، کمیونیکیشنز، کمپیوٹرز، انٹیلیجنس، سرویلینس اور ریکانیسانس ہوتا ہے اور اسے کسی بھی فوجی آپریش کی ریڑھ کی ہڈی سمجھا جاتا ہے۔
انھوں نے کہا تھا کہ ‘جیسا کہ انڈیا کے پاس بھی روسی، فرانسیسی ساختہ ہتھیار تھے تو پاکستان نے بھی غیر ملکی ہتھیار ضرور استعمال کیے مگر انڈین طیاروں کو گرانے کے لیے جو بھی وسائل اور حکمت عملی استعمال کی گئی وہ پاکستان کی اپنی تھی۔’
ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘چین قریبی اتحادی اور ہمسایہ ہے، ہمارا زیادہ تر فوجی ہارڈویئر چین سے لیا گیا ہے، عسکری آلات اور اسلحے کی بات کی جائے تو وہ ہمارے سب سے بڑے شراکت دار ہیں۔’
پاکستان کی ایئرفورس کی جانب سے پریس بریفنگز کے دوران یہ دعویٰ کیا جاتا رہا ہے کہ پاکستان کی جانب سے الیکٹرانک وارفیئر صلاحیتوں کے باعث انڈین طیاروں کی جیمنگ عمل میں آئی تھی۔
اس حوالے ڈپٹی آرمی چیف لیفٹیننٹ جنرل راہول سنگھ نے کہا کہ ‘ہمیں الیکٹرانک وارفیئر کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔’
اس کے علاوہ انھوں نے بہتر ایئر ڈیفنس نظام بنانے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ انھوں نے کہا کہ ‘ہماری شہری آبادی کو بھی تحفظ کی ضرورت ہے۔ ہمارے پاس اسرائیل کے طرح آئرن ڈوم اور دیگر فضائی دفاعی نظام سے اپنے ملک کو محفوظ رکھنے کی سہولت اس لیے نہیں ہے کیونکہ ہمارا ملک بہت بڑا ہے اور ان کی تعمیر میں بہت زیادہ رقم درکار ہوتی ہے۔ اس لیے ہمیں اس حوالے سے نئے حل ڈھونڈنے ہوں گے۔’
ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘ایک اور سبق یہ تھا کہ ہمیں محفوظ سپلائی چین بنانی ہو گی۔ جو آلات ہمیں اس سال جنوری یا گذشتہ برس اکتوبر، نومبر میں ملنے چاہیے تھے، وہ ہمارے پاس موجود نہیں تھے۔