بھارتی آرمی چیف جنرل اُپندر دویدی نے چانکیہ ڈیفنس ڈائیلاگ کے دوران کشمیر، پاکستان اور علاقائی سکیورٹی سے متعلق متعدد دعوے کیے، جنہیں ماہرینِ دفاع، انسانی حقوق گروپس اور بین الاقوامی مبصرین نے سوالات کی زد میں لیا ہے۔ جنرل دویدی نے دعویٰ کیا کہ اگست 2019 کے بعد کشمیر میں دہشتگردی میں ’’نمایاں کمی‘‘ آئی ہے اور مارے جانے والے 31 مبینہ دہشتگردوں میں سے 61 فیصد پاکستانی شہری تھے، تاہم بھارت نے اب تک ان دعوؤں کے کوئی شفاف، تصدیق شدہ یا قابلِ جانچ ثبوت پیش نہیں کیے۔ انسانی حقوق کی عالمی رپورٹس، اقوامِ متحدہ کے ماہرین اور بین الاقوامی میڈیا کے مطابق کشمیر میں بدستور گرفتاریوں، محاصروں، جبری پابندیوں اور سیاسی دباؤ کا سلسلہ جاری ہے، جو بھارتی مؤقف کے برعکس خطے میں جاری کشیدگی اور مقامی مزاحمت کی عکاسی کرتا ہے۔
پاکستان نے بھارت کے ’’ٹاکس اینڈ ٹیرر کینٹ گو ٹوگیدر‘‘ بیانیے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ مذاکرات کو مشروط کرنا خطے میں کشیدگی کم کرنے کے بجائے سفارتی راستے بند کرنے کے مترادف ہے۔ اسی طرح ’’خون اور پانی ساتھ نہیں بہہ سکتے‘‘ جیسے سیاسی جملوں کو پاکستان نے تعلقات میں تعطل پیدا کرنے کی دانستہ حکمتِ عملی قرار دیا ہے۔ جنرل دویدی کے بیان میں آپریشن سندور کو ’’صرف ٹریلر‘‘ قرار دینا اور مستقبل میں ’’مزید سخت کارروائی‘‘ کی دھمکیاں دینا خطے میں غیر ضروری اشتعال کا سبب بن سکتا ہے۔ پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ بھارتی کارروائیوں کے دوران عام شہریوں کو نقصان نہ پہنچنے کا دعویٰ بھی زمینی حقائق اور آزادانہ رپورٹس سے مطابقت نہیں رکھتا۔
بھارتی آرمی چیف کی جانب سے ملٹی ڈومین وارفیئر، اسٹریٹجک کانفیڈنس اور دفاعی جدیدیت کا ذکر ماہرین کے مطابق خطے میں اسلحے کی دوڑ کو مزید تیز کر رہا ہے۔ پاکستان نے دفاعی مقاصد کے لیے عسکری جدت پر زور دیتے ہوئے بھارت سے مؤثر اسلحہ کنٹرول، اعتماد سازی کے اقدامات اور مذاکرات کی راہ اختیار کرنے کا مطالبہ کیا ہے تاکہ خطرناک غلط فہمیوں اور جنگی ماحول سے بچا جا سکے۔ چانکیہ ڈائیلاگ میں منی پور کی صورتحال کا حوالہ دینا بھی ماہرین کے مطابق کشمیر کے منفرد سیاسی پس منظر سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے، جہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور سخت گیر پالیسیاں اصل مسئلہ بنی ہوئی ہیں۔
بھارتی آرمی چیف کے مرکزی دعوے کہ مارے جانے والے دہشتگردوں میں اکثریت پاکستانی شہریوں کی تھی; کا کوئی ثبوت نہ پیش کیا جانا بھارتی بیانیے کو مزید مشکوک بناتا ہے۔ بھارت کی جانب سے نہ تو تفصیلی انٹیلی جنس رپورٹس جاری کی گئیں، نہ ہی آزادی کے ساتھ غیر جانب دار جانچ کی اجازت دی گئی ہے، جس سے ان اعداد و شمار کے سیاسی مقاصد ہونے کا تاثر مضبوط ہوتا ہے۔ پاکستان نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ بھارتی دعوؤں کا غیر جانبدارانہ جائزہ لیا جائے اور کشمیر کے دیرینہ مسئلے کا سیاسی حل تلاش کرنے میں کردار ادا کیا جائے، جو کشمیری عوام کے حقِ خود ارادیت اور خطے کے امن کے لیے ناگزیر ہے۔
دیکھیں: پاکستانی ریپر طلحہ انجم بھارتی پرچم لہرانے پر تنقید کی زد میں