دنیا بھر میں دہشت گردی ایک ایسا چیلنج بن چکی ہے جس سے نمٹنے کے لیے ریاستوں سے شفافیت، ذمہ داری اور بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کا تقاضا کیا جاتا ہے۔ مگر بدقسمتی سے حالیہ برسوں میں متعدد ایسے واقعات اور انکشافات سامنے آئے ہیں جنہوں نے عالمی سطح پر بھارت کے کردار پر سنجیدہ اور پریشان کن سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ اس کے باوجود عالمی برادری کی خاموشی ایک تلخ حقیقت بن چکی ہے، جس کی بڑی وجہ بھارت کی بڑی معیشت، وسیع منڈی اور اسٹریٹجک اہمیت کو قرار دیا جا رہا ہے۔
حالیہ دنوں آسٹریلیا میں پیش آنے والے ایک پرتشدد حملے نے عالمی توجہ حاصل کی، جہاں ابتدائی تحقیقات اور میڈیا رپورٹس کے مطابق حملے میں ملوث شخص کا تعلق ایک ایسے خاندان سے بتایا جا رہا ہے جس کے والد بھارتی شہری ہیں۔ اگرچہ تفتیشی عمل ابھی جاری ہے اور کسی ریاستی سطح پر حتمی فیصلہ سامنے نہیں آیا، تاہم یہ حقیقت کہ حملے میں ملوث فرد کا خاندانی پس منظر بھارت سے جڑا ہوا ہے، اس وسیع تر بحث کو مزید تقویت دیتی ہے کہ بھارتی نژاد نیٹ ورکس مختلف خطوں میں پرتشدد سرگرمیوں میں کس حد تک ملوث رہے ہیں۔ اس کے باوجود، ابتدائی دنوں میں پاکستان کو موردِ الزام ٹھہرانے کی کوششیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ بیانیہ سازی میں حقائق سے زیادہ مفادات کو ترجیح دی جاتی ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ بھارت پر اس نوعیت کے الزامات عائد ہوئے ہوں۔ پاکستان میں گرفتار ہونے والا بھارتی نیوی کا حاضر سروس افسر کلبھوشن یادیو اس کی ایک نمایاں مثال ہے، جس نے اعتراف کیا کہ وہ پاکستان میں تخریب کاری، دہشت گردی اور عدم استحکام پھیلانے کے لیے سرگرم رہا۔ کلبھوشن یادیو کا معاملہ نہ صرف پاکستان بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی بھارت کے ریاستی کردار پر ایک سوالیہ نشان بن چکا ہے، مگر حیرت انگیز طور پر اس معاملے پر بھی وہ عالمی ردِعمل دیکھنے میں نہیں آیا جو دیگر ممالک کے خلاف الزامات کی صورت میں فوراً سامنے آ جاتا ہے۔
اسی طرح قطر اور مالدیپ جیسے ممالک میں بھی بھارتی نیٹ ورکس کی مشتبہ سرگرمیوں پر تحفظات کا اظہار کیا جا چکا ہے۔ مالدیپ میں سیاسی عدم استحکام، داخلی معاملات میں مداخلت اور خفیہ نیٹ ورکس کے الزامات ہوں یا قطر میں حساس معاملات میں بھارتی عناصر کے کردار پر اٹھنے والے سوالات، یہ سب اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ مسئلہ محض کسی ایک ملک تک محدود نہیں رہا۔ اس کے باوجود عالمی طاقتیں ان معاملات کو یا تو نظرانداز کرتی ہیں یا پھر محتاط خاموشی اختیار کر لیتی ہیں، کیونکہ بھارت ایک بڑی معیشت اور اہم اسٹریٹجک شراکت دار کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
کینیڈا میں سکھ رہنماؤں کے قتل اور وہاں کی قیادت کی جانب سے بھارتی خفیہ ایجنسیوں پر براہِ راست الزامات نے اس بحث کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ تاہم یہاں بھی عالمی ردِعمل محدود رہا، جو اس تاثر کو تقویت دیتا ہے کہ بین الاقوامی نظام میں انصاف اور احتساب کا معیار یکساں نہیں بلکہ طاقت اور معاشی حیثیت سے مشروط ہے۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ دوہرے معیار کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ اگر کسی ریاست یا اس کے شہری بیرونِ ملک تشدد، تخریب کاری یا عدم استحکام میں ملوث پائے جائیں تو شفاف، غیر جانبدار اور بین الاقوامی تحقیقات ناگزیر ہونی چاہئیں۔ مگر جب شواہد کے باوجود خاموشی اختیار کی جائے، تو یہ خاموشی خود ایک سوال بن جاتی ہے۔
دہشت گردی کسی ایک خطے یا قوم کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے خطرہ ہے۔ اس کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ عالمی برادری معاشی مفادات اور اسٹریٹجک شراکت داریوں سے بالاتر ہو کر حقائق کی بنیاد پر فیصلے کرے۔ بصورتِ دیگر، دہشت گردی کے خلاف عالمی بیانیہ کھوکھلا اور عالمی امن محض ایک نعرہ بن کر رہ جائے گا۔