گزشتہ چند برسوں سے اسرائیلی جارحیت میں بے پناہ اضافہ دیکھنے کو ملا ہے. غزہ کی سرزمین تو خوان سے رنگین ہی تھی لیکن ایسا ملک جو فلسطین۔ اسرائیل جنگ بندی کے لیے کوشاں تھا وہی اسرائیلی جارحیت کا نشانہ بن گیا۔
اسرائیل اس قدر جارحیت پر اُتر سکتا تھا شائد کسی کے زعم میں بھی نہیں تھا لیکن یہ بات ملحوظ ہونی چاہیے کہ ہنود گریٹراسرائیل منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے کسی بھی اقدام سے دریغ نہیں کریں گے۔
قطر پر اسرائیلی حملے کے نتیجے میں تمام مسلم ممالک جہاں قطر کی حمیات اور اسرائیلی جارحیت کی مذمت کررہے ہیں وہیں مسلم ممالک کے سربراہان اتحادو یگانگت کا بھی مظاہرہ کررہے ہیں۔ اسی سلسلے میں پاکستان قطر کے شانہ بشانہ کھڑے ہوتے ہوئے قطر میں موجود ہے۔
پاکستان کے وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے الجزیرہ کو انٹرویو دیا جس میں اسرائیل کے جارحانہ اقدامات کی شدید مذمت کرتے ہوٗے مسلم امہ سے تقاضا کیا کہ ہمیں عملی اقدامات اٹھانا ہونگے فقط مذمت سے کام نہیں چلے گا۔
گذشتہ روز مسلم ممالک کی مشترکہ کانفرنس جو مسلم امہ کی توجہ کا محور بنی ہوٗی تھی یہ سوچتے ہوئے مسلم ممالک کے سربراہان امت کے مفاد میں واضح اور دوٹوک فیصلہ کریں گے جو اسرائیل و دیگر استعماری قوتوں کو ناکوں چنے چبواٗے گا۔ نیز کوئی اس طرز کا فیصلہ کیا جائے گا جیسے آج سے دو دہائیاں قبل استعماری قوتوں نے نیٹو اتحاد کی صورت میں کیا تھا اسی طرح مسلم نوجوان بھی اسی زعم مبتلا تھا کہ مسلم امہ کے نمائندگان تاریخی فیصلہ کریں گے۔ لیکن ہوا اس کے برعکس۔
قطر منعقدہ مسلم سربراہان کانفرنس کی قطر نے میزبانی کی۔ جس میں پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سمیت کئی اہم طاقت ور مسلم ممالک شریک ہوئے وہاں وہی روایتی انداز وہی سابقہ روش اپناتے ہوئے محض صیہونی ریاست کے ظالمانہ و جابرانہ اقدامات کی مذمت کرتے ہوئے اپنی اپنی راہیں لیں۔
انٹرویو دیتے ہوئے اسحاق ڈار کا کہنا تھا دو ارب سے زائد مسلمانوں کے قائدین کو رسمی و روایتی الفاظ سے آگے بڑھنا ہوگا فقط پُرجوش تقاریر و شعلہ نوانائی کافی نہیں اب وقت کا تقاضا ہے کہ مسلم امہ کے نمائندگان کو ایک واضح اور قابلِ عمل مشترکہ لائحہ عمل طے کرنے کی ضرورت ہے۔
دیکھا جائے تو اسرائیل اقوام متحدہ کے قوانین و قراردادوں کی دھجیاں بکھیر رہا ہے۔ غاصبانہ ریاست نے بارہا مرتبہ عالمی اداروں و انسانی قوانین کی پامالی کی چاہے وہ فلسطین سے یا کسی بھی مسئلے متعلق ہو یہ تمام تر عوامل اس بات کا ثبوت ہیں کہ نام نہاد انصاف کے علمبردار ادارے امن و انصاف کی فراہمی میں ناکام ہوچکے ہیں۔ لہذا امتِ مسلم کے نمائندگان کو دوٹوک فیصلہ کرتے ایسا نظآم مرتب کرنا ہوگا کہ فی الحقیقۃ انصاف کی فراہمی اور ظالمانہ و غاصبانہ اقدمات کی روک ٹوک ہوسکے۔
اسحاق ڈار کا کہنا تھا اول تو یہ کہ فلسطین اسرائیل کے مابین غیر مشروط جنگ بندی کی جائے اور بھوک و افلاس سے نڈھال انسانوں تک بغیر کسی روک ٹوک و پابندی کے خوارک کی فراہمی ممکن بنائی جائے۔ خوراک و امداد کو بطورِ ہتھیار استعمال انتہائی شرمناک ومل ہے جس کے خلاف جس قدر کہا جائے کم ہے۔
ریاستِ پاکستان جنگ کے بجائے مذاکرات کو ترجیح دیتی ہے لیکن روزِ اول سے امن و مذاکرات کی کوششیں رائیگاں نظر آرہی ہیں لہذا عالمی برادری کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ اسرائیل کے جارحانہ اقدمات کے نتیجے میں دُنیا کا امن تہہ و بالا نہ ہوجائے۔
دیکھا جائے تو پاکستان بحیثیت ایٹمی قوت کے امتِ مسلمہ کی جانب سے فریضہ ادا کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہے۔
دیکھا جائے تو جیسے اسرائیل فلسطین میں بین الاقوامی قانون اور انسانی حقوق کی پامال کرتا نظر آرہا ہے اسی طرح بھی بھارت بھی کشمیر میں اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی خلاف ورزی اور عالمی قوانین کی پامالی کررہا ہے۔
اسرائیل و بھارت دونوں ممالک کے انسانیت سوز اقدامات اقوام متحدہ کی ساکھ کو نقصان پہنچاتے ہوئے مسلم ممالک میں عدمِ اعتماد کی فضا قائم کررہے ہیں لہذا اس طرح کے سنگین معاملات پر عالمی ادارون کی پُر اسرار خاموشی و معنی خیز سُکوت اب قطعاً برداشت کرنے کے لائق نہیں ہے۔
اسحاق ڈار کا کہنا تھا اسی طرح سرزمینِ پاکستان گزشتہ چند ماہ سے شدید دہشت گردانہ حملوں کی زد میں ہے بالخصوص فتنۃ الخوارج سے منسلک عسکریت پسندوں کی کاروائیاں جس مین سیکیورٹی ادارے نشانے پر ہیں اور ان کاتروائیوں کے لیے دہشت گرد افغان سرزمین کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان میں عسکریت پسند کاروائیاں کرتے ہیں۔
تمام تر حالات و واقعات کو دیکھتے ہوئے ریاستِ پاکستان افغانستان سے توقع رکھتی ہے کہ افغان سرزمین ٹی ٹی پی، بی ایل اے جیسی دہشت گرد تنظیموں کے استعمال ہونے روکی جائے گی نیز ان کالعدم تنظیوں کلا بھی قلع قمع کیا جائے گا۔
الجزیرہ کو انٹرویو دیتے ہوٗے اسحاق ڈار کا کہنا تھا یہ بات تمام قوتوں کے دل و دماغ میں ہونی چاہیے کہ پاکستانی عوام اور افواجِ پاکستان پر حملوں کا بھرپور جواب دیا جائے گا بغیر کسی مصلحت کے نیز چاہے اُن قوتوں کی پشت پناہی ہمسای مالک ہی کیوں نہ کررہے ہوں بھرپور کاروائی کی جائے گی۔
لہذا امتِ مسلمہ پر صیہونی و ظالمانہ ریاستوں کی سفاکیت کو دیکھتے ہوئے مسلم ممالک کے سربراہان کو اتحاد، جرات اور حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔
پاکستان مطالبہ کرتا ہے کہ غزہ میں فوری جنگ بندی کی جائے اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہونے والوں کو کڑی سزا دیتے ہوئے مظلوموں کو انصاف قراہم کیا جائے۔
یاد رہے کہ اگر اقوام متحدہ سمیت عالمی ادارے اور ممالک اسرائیل کو تحفظ فراہم کرتے رہے تو ان اداروں سے مایوسی کی صورت میں مسلم ممالک اور اسلام پسند لوگوں کو ظالمانہ و غاصبانہ اقدامات کے پیشِ نظر انصاف کی بالادستی کے لیے عالمی اتحاد اور عالمی پر نظرِ ثانی کرنی ہوگی۔
ریاستِ پاکستان جس کے امریکہ، چین، سعودی عرب، ترکی اور روس سے گہرے روابط ہیں اس تناظر میں مکالمے اور امن کے فروغ کے لیے پاکستان ایک مؤثر کردار ادا کر سکتا ہے۔ یاد ہے کہ پاکستان 57 اسلامی ممالک میں واحد ایٹمی قوت سے اور کئی جنگوں کا تجربہ بھی رکھتا ہے۔ اس تناظر میں حالیہ صورتحال کے دوران پاکستان کا کردار مزید اہمیت کا حامل ہے۔
آخر میں ہماری ترجیح اور سوچ یہ ہونی چاہیے کہ غزہ میں انسانیت سوز مظالم کسی بھِی بڑی جنگ کا راستہ ثابت نہ ہوں۔ وگرنہ دنیا میں امن انصاف کا قیام ناممکن ہوجائے گا۔
دیکھیں: قطر کے بعد ترکی؟ اسرائیلی میڈیا نے ترکی کو اسرائیل کا اگلا مبینہ نشانہ قرار دے دیا