ترکی میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان جاری چار روزہ مذاکرات بے نتیجہ ختم ہوگئے۔ سفارتی ذرائع کے مطابق پاکستانی وفد نے دورانِ مذاکرات سرحد پار سے ہونے والے دہشت گردانہ واقعات کے شواہد پیش کرتے ہوئے ان گروہوں کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کیا، تاہم افغان وفد یقین دہانی اور تحریری معاہدے سے کتراتے رہے۔
وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے اپنے بیان میں کہا کہ استنبول مذاکرات میں کوئی قابلِ عمل حل اور نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے دورانِ مذاکرات دوحہ معاہدے میں کیے گئے وعدوں کی یاد دہانی اور سرحد پار سے ہونے والے حملوں کو روکنے کی ضمانت طلب کی لیکن طالبان وفد نے بارہا مرتبہ اس سے توجہ ہٹانے کی کوشش کی۔
عطا تارڑ کے مطابق پاکستان کے پیش کردہ شواہد مضبوط اور ناقابلِ تردید تھے مگر افغان وفد نے الزام تراشی اور عدمِ سنجیدگی کی پالیسی اپنائے رکھی۔ انہوں نے مزید کہا ہے کہ افغان حکام اپنے عوام کو ایک مرتبہ پھر غیر یقینی اور بدامنی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔
وفاقی وزیر عطا تارڑ نے کہا کہ پاکستان دہشت گرد گروہوں اور انکے سہولت کاروں کے خلاف فیصلہ کُن کارروائیوں کا سلسلہ جاری رکھے گا۔ انہوں نے کہا کہ قومی سلامتی اور شہریوں کا تحفظ ہماری اولین ترجیح ہے لہذا امن وامان کے لیے ہر طرح کے اقدامات کیے جائیں گے۔
وفاقی وزیر عطا تارڑ نے اس موقع پر ثالثی کا کردار ادا کرنے پر ترکی، قطر کا شکریہ اداکیا اور کہا کہ خطے کے امن و امن کے لیے آپکی کوششیں لائقِ صد تحسین ہے۔
دیکھیں: طالبان کے اندرونی مسائل اور مالی مفادات نے استنبول مذاکرات کو لگ بھگ ناکام بنا دیا