استنبول میں پاکستان اور افغانستان کے مابین مذاکرات کے معطل ہونے کے دوران طالبان نے 22 ٹن قندھاری انار روس بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔ دیکھا جاٗے تو یہ اپنی معیشت و تجارت کو بہتر ظاہر کرنے کی ایک کوشش ہے نہ کہ کوئی اقتصادی و معاشی کامیابی۔
یہ اقدام عین ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پاکستان نے تحریک طالبان پاکستان کے خلاف عملی کارروائی کا مطالبہ بنیادی شرط کے طور پر پیش کیا تھا۔
دیکھا جائے تو طالبان کے اس اعلان کا مقصد عالمی اور علاقائی سطح پر خود انحصاری کا تاثر دینا ہے لیکن زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔ یاد رہے کہ افغانستان کی معیشت گزشتہ چند برسوں میں 25 فیصد بُری طرح سے متاثر ہوچکی ہے جبکہ پھل برآمدات کا محض چوتھا حصہ بنتے ہیں۔ یہ بھی پاکستان کی سیکیورٹی بنیادوں پر عائد کردہ تجارتی پابندیوں کے باعث متاثر ہو رے ہیں۔ 22 ٹن انار بھیجنا ان ہزاروں ٹن پھلوں کا متبادل نہیں جو روزانہ پاکستان کے راستے برآمد ہوتے تھے۔
افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد اپنے بیانات کے ذریعے اپنی ساکھ اور معیشت بحال کرنے کا راستہ تلاش کررہے ہیں۔ تاہم تجارتی راستوں اور معاشی استحکام کی حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی متبادل راستہ پاکستان کے تجارتی راستوں اور سیکیورٹی کی ضمانتوں کا بدل نہیں بن سکتا۔
له افغانستان څخه روسیې هېواد ته د انارو د لیږد د پروسې پيل په اقتصادي لحاظ یو خورا ارزښتمن ګام دی.
— Zabihullah (..ذبـــــیح الله م ) (@Zabehulah_M33) October 27, 2025
په دې سره به زموږ د هیواد موه جاتو خصوصا اناروته یو بل ستر مارکیټ پیدا شي او د هېواد د صادراتو په برخه کې به پرمختګ رامنځته شي. ان شاءالله pic.twitter.com/oLZts1UwoI
حقیقی خودمختاری تب ہی ممکن ہے جب افغانستان انتہاپسند گروہوں کے خلاف مؤثر و عملی اقدامات کرے، نہ کہ صرف پھل کے ٹرک شمال کی جانب بھیج کر میڈیا میں اپنے آپ کو کامیاب قرار دلوائے۔ پاکستان کا روزِ اوّل سے موقف واضح ہے کہ ٹی ٹی پی اور اس کے ذیلی گروہوں کے خلاف کارروائی کے بغیر تجارت معمول پر نہیں آ سکتی۔ معاشی سہولیات اور تجارت سیکیورٹی کی یقین دہانیوں اور ٹی ٹی پی کے خلاف عملی اقدامات کے بعد ہی ممکن ہے۔
طالبان کی انار کی تجارت ایک ظاہری سی علامت ہے، جو علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر خود انحصاری اور مستحکم معیشت کا تاثر دینے کے لیے کی گئی ہے۔ مگر جغرافیائی حقائق اور معاشی ضروریات اس بات کو ظاہر کرتی ہیں کہ افغانستان کی حقیقی خودمختاری اور معاشی استحکام پاکستان کے ساتھ تعاون اور انتہاپسندی کے خاتمے کے بغیر ناممکن ہے۔ استنبول مذاکرات کی کامیابی کا انحصار اس بات پر ہے کہ سیکیورٹی اور اعتماد سازی کے عملی اقدامات سامنے آئیں، نہ کہ صرف علامتی برآمدات یا زبانی کلامی یقین دہانیاں۔
دیکھیں: پاک افغان مذاکرات میں خاطر خواہ پیش رفت نہ ہو سکی؛ ٹی ٹی پی کے خلاف پاکستان کا دوٹوک مؤقف برقرار