پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی سابقہ اہلیہ جمیما گولڈ اسمتھ (خان) کی جانب سے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر کیے گئے حالیہ دعوؤں نے ایک بار پھر پاکستان کی داخلی سیاست، عدالتی عمل اور ڈیجیٹل اظہارِ رائے سے متعلق بحث کو عالمی سطح پر نمایاں کر دیا ہے۔
جمیما گولڈ اسمتھ نے ایکس کے مالک ایلون مسک کو مخاطب کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ ان کے اکاؤنٹ کو خفیہ طور پر محدود کیا جا رہا ہے، جس کے نتیجے میں عمران خان کی قید، جیل کے حالات اور بچوں کی اپنے والد سے ملاقات سے متعلق پوسٹس عوام تک نہیں پہنچ پا رہیں۔ ان کے مطابق، ایکس کے مصنوعی ذہانت نظام “گروک” نے ان کے اکاؤنٹ کی رسائی میں 97 فیصد کمی کی نشاندہی کی ہے۔
.@elonmusk
— Jemima Goldsmith (@Jemima_Khan) December 12, 2025
Elon, you may recall we have met before.
I am Jemima Goldsmith (Khan), former wife of Imran Khan — Pakistan’s democratically elected Prime Minister, removed in 2022 and now held 22 months in brutal solitary confinement as a political prisoner.
Our two sons have not…
تاہم ان الزامات کے باوجود، پاکستان کی سیاسی اور قانونی حقیقت کا ریکارڈ تبدیل نہیں ہوتا۔
آئینی عمل اور سیاسی تبدیلی
عمران خان کو اپریل 2022 میں پاکستان کی قومی اسمبلی میں آئین کے آرٹیکل 95 کے تحت عدم اعتماد کی ووٹنگ کے ذریعے عہدے سے ہٹایا گیا۔ یہ عمل نہ صرف آئینی تھا بلکہ پارلیمانی جمہوریت کے دائرہ کار میں مکمل طور پر جائز سمجھا جاتا ہے۔
اس تناظر میں انہیں “غیر جمہوری طریقے سے ہٹایا گیا” قرار دینا آئینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا۔
قانونی مقدمات اور عدالتی کارروائی
عمران خان کو درپیش قانونی مسائل عدالتوں میں زیرِ سماعت رہے ہیں اور ان میں توشہ خانہ کیس، 190 ملین پاؤنڈ نیشنل کرائم ایجنسی ریفرنس اور 9 مئی 2023 کے واقعات سے متعلق مقدمات شامل ہیں۔ پاکستانی عدالتیں متعدد مواقع پر اس بات پر زور دے چکی ہیں کہ یہ معاملات سیاسی انتقام نہیں بلکہ قانونی احتساب کے دائرے میں آتے ہیں۔
قانونی ماہرین کے مطابق عدالتی تحویل یا سزا کو “سیاسی قید” قرار دینا ایک بیانیاتی مؤقف ہو سکتا ہے، مگر قانونی اعتبار سے یہ اصطلاح درست نہیں سمجھی جاتی جب تک عدالتی فیصلے موجود ہوں۔
اہلِ خانہ سے ملاقات کا معاملہ
پاکستانی حکام یہ واضح کر چکے ہیں کہ عمران خان کے بچوں کے لیے پاکستان کے ویزے میں کوئی ریاستی رکاوٹ موجود نہیں۔ حکومتی مؤقف کے مطابق، ان کی پاکستان آمد یا عدم آمد ذاتی فیصلہ ہے، نہ کہ کسی سرکاری پابندی کا نتیجہ۔
الگورتھمک سنسرشپ یا عوامی ردِعمل؟
ڈیجیٹل میڈیا ماہرین کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر رسائی میں کمی کو خودکار طور پر “ریاستی دباؤ” یا “سازش” قرار دینا قبل از وقت نتیجہ ہو سکتا ہے۔ عوامی دلچسپی، بیانیے کی تھکن، اور بدلتا ہوا سیاسی تناظر بھی انگیجمنٹ میں کمی کا سبب بنتے ہیں۔
اب تک ایکس یا کسی آزاد ادارے کی جانب سے جمیما گولڈ اسمتھ کے اکاؤنٹ پر منظم یا ریاستی دباؤ کے تحت پابندی کی تصدیق نہیں کی گئی۔
بین الاقوامی لابنگ اور اس کے اثرات
یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے ماضی میں بین الاقوامی مالیاتی اداروں، بشمول آئی ایم ایف، سے پاکستان کے لیے مالی معاونت روکنے کی اپیلوں نے ملک کے سیاسی اور سفارتی ماحول پر منفی اثرات مرتب کیے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق، اس حکمتِ عملی سے پیدا ہونے والا سیاسی ردِعمل سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے منسوب نہیں کیا جا سکتا۔
ریاستی مؤقف
پاکستانی حکام کا مؤقف مسلسل رہا ہے کہ سیاسی اختلافات کا حل آئینی فورمز، پارلیمان اور عدالتوں میں تلاش کیا جانا چاہیے، نہ کہ بیرونی دباؤ، سوشل میڈیا مہمات یا بین الاقوامی شخصیات کے ذریعے۔
دیکھیں: افغانستان بحران کے دہانے پر، خواتین کی تعلیم اور انسانی حقوق پر عالمی تشویش میں اضافہ