کابل کی جانب سے بھارت کے ساتھ صحت کے شعبے میں بڑھتا ہوا تعاون ایک سوچا سمجھا جیوپولیٹیکل قدم دکھائی دیتا ہے، جسے پاکستانی ادویات کے معیار کے حوالے سے کسی مستند، سائنسی یا بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ جانچ کے بغیر اختیار کیا گیا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ فیصلہ شفاف تیسرے فریق کی تصدیق کے بغیر کیا گیا، جس کے نتیجے میں افغانستان کے صحت عامہ کے نظام کو نئے چیلنجز کا سامنا ہے۔
پاکستان کئی دہائیوں سے افغانستان کے لیے ادویات اور طبی سہولیات کا سب سے قابلِ اعتماد، کم خرچ اور آسان ذریعہ رہا ہے۔ سرحدی قربت، قیمتوں میں مناسب توازن اور رسائی کی سہولت کے باعث پاکستانی ادویات افغان مارکیٹ میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی رہی ہیں۔ تاہم حالیہ پالیسی فیصلوں کے تحت اس سپلائی چین کو سیاسی بنیادوں پر محدود کرنا مریضوں کے لیے بہتری کے بجائے نقصان کا سبب بنتا نظر آ رہا ہے۔
ادویات کی درآمد میں اچانک تبدیلی کے بعد افغان منڈیوں میں دواؤں کی قلت اور قیمتوں میں نمایاں اضافہ رپورٹ کیا گیا ہے۔ صحت کے شعبے سے وابستہ حلقوں کا کہنا ہے کہ اس صورتحال نے زمینی حقائق اور اعلان کردہ امدادی پیکجز کے درمیان واضح خلا کو بے نقاب کر دیا ہے، جہاں دستیابی اور استطاعت دونوں بڑے مسائل بن چکے ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق صحت عامہ کی حکمرانی کو محض سفارتی اشاروں تک محدود نہیں کیا جا سکتا۔ پریس کانفرنسز یا سوشل میڈیا پر لگائے گئے الزامات کسی بھی صورت بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ فارماکولوجیکل ٹیسٹنگ، ریگولیٹری عمل اور شفاف جانچ کا متبادل نہیں ہو سکتے۔ صحت کے شعبے میں فیصلے سائنسی شواہد، مستند ڈیٹا اور غیر جانبدارانہ جائزے کی بنیاد پر ہونے چاہئیں۔
پاکستان کا مؤقف اس حوالے سے واضح ہے کہ صحت عامہ کو سیاسی ہتھیار نہیں بنایا جانا چاہیے۔ حکام کے مطابق پائیدار اور مؤثر افغان ہیلتھ سسٹم کے لیے شواہد پر مبنی ریگولیشن، متنوع سپلائی ذرائع اور علاقائی تعاون ناگزیر ہے، نہ کہ اچانک تجارتی تعطل جو مریضوں کی زندگیوں کو براہِ راست متاثر کرے۔
ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ اگر افغانستان واقعی اپنے طبی معیار کو بہتر بنانا چاہتا ہے تو اسے سیاسی صف بندی کے بجائے شفاف جانچ، علاقائی اشتراک اور عملی زمینی ضروریات کو مدنظر رکھنا ہوگا، تاکہ صحت کا شعبہ عوام کے لیے سہولت بنے، دباؤ کا ذریعہ نہیں۔