مشرقِ وسطیٰ سے متعلق اسرائیل نواز تحقیقی ادارے “مڈل ایسٹ میڈیا ریسرچ انسٹیٹیوٹ” نے ایک نئے منصوبے بلوچستان اسٹڈیز پروجیکٹ کا آغاز کر دیا ہے جسے مبصرین خطے میں اسرائیلی اثر و رسوخ بڑھانے کی ایک نئی کوشش قرار دے رہے ہیں۔
اس پراجیکٹ کی شروعات کا وقت خاصا معنی خیز ہے کیونکہ یہ اس وقت سامنے آیا جب اسرائیل ایران پر ممکنہ حملے کی تیاریاں کر رہا تھا۔ ادارے کی ویب سائٹ پر جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ منصوبہ ایران اور پاکستان کے تعلقات اور ایران کے ایٹمی عزائم کا مقابلہ کرنے کے لیے “بلوچستان کو ایک مثالی مقام” تصور کرتا ہے۔ بیان میں بلوچستان کی معدنی دولت، جیسے تیل، گیس، یورینیم، تانبا، کوئلہ اور گوادرو چابہار جیسے گہرے بندرگاہوں کی اہمیت کو بھی نمایاں کیا گیا ہے۔
تھنک ٹینک یا انٹیلی جنس پلیٹ فارم؟
یاد رہے کہ “میمری” کا ماضی اسرائیلی فوجی انٹیلی جنس کے ساتھ گہرے روابط کا حامل رہا ہے۔ اس ادارے کے بانی، کرنل یگیل کارمون، اسرائیلی فوج میں دو دہائیوں تک خدمات انجام دے چکے ہیں اور کئی رپورٹس کے مطابق “میمری” خفیہ طور پر اسرائیلی ریاست کے لیے انٹیلیجنس کام بھی انجام دیتا رہا ہے۔
بلوچستان اسٹڈیز پروجیکٹ کے ذریعے یہ ادارہ ایران اور پاکستان دونوں کے خلاف بلوچستان کی آزادی کی تحریک کو ممکنہ طور پر اپنے جیوپولیٹیکل مفادات کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے۔
متنازع شخصیات اور مشکوک روابط
اس پروجیکٹ میں ایک نام “میر یار بلوچ” کا بھی شامل کیا گیا ہے، جنہیں “معروف بلوچ دانشور” کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے۔ تاہم بلوچ سیاسی حلقوں اور اہم کارکنان نے اس پر سنجیدہ سوالات اٹھائے ہیں۔ بلوچ نیشنل موومنٹ کے رہنما نیاز بلوچ نے سوشل میڈیا پر دعویٰ کیا ہے کہ میر یار بلوچ سمیت چند اکاؤنٹس جعلی ہیں اور ان سے بلوچ تحریک کا کوئی تعلق نہیں۔ میر یار بلوچ حال ہی میں بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کو بلوچستان کی آزادی کا اشارہ دے چکے ہیں، اور اسرائیل کی کھل کر حمایت کرتے نظر آتے ہیں۔
بھارت-اسرائیل گٹھ جوڑ اور خطے پر اثرات
تجزیہ کاروں کے مطابق یہ منصوبہ بھارت اور اسرائیل کے اسٹریٹیجک اتحاد کا مظہر ہو سکتا ہے جس کا مقصد ایران و پاکستان کی علاقائی پوزیشن کو کمزور کرنا اور بلوچ علیحدگی پسند تحریکوں کو جیوپولیٹیکل ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا ہے۔
یہ صورتِ حال نہ صرف بلوچستان کی عوامی جدوجہد کے لیے نقصان دہ ہو سکتی ہے بلکہ فلسطینی اور دیگر بے ریاست اقوام کے ساتھ مشترکہ استعماری مزاحمت کی راہ میں بھی رکاوٹ بن سکتی ہے۔ ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ صرف جیوپولیٹیکل مفادات کی بنیاد پر اتحاد قائم کرنا وقتی فائدہ دے سکتا ہے، لیکن یہ اصولی جدوجہد کو کمزور کر دیتا ہے۔
بلوچستان کے معاملے میں اسرائیلی دلچسپی اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں ریاستی مفادات اب نئی سرحدوں کو چھو رہے ہیں۔ اس تناظر میں بلوچ عوام کے لیے یہ وقت احتیاط کا ہے، تاکہ ان کی اپنے جائز حقوق کیلئے جدوجہد کسی اور کے جیوپولیٹیکل ایجنڈے کا ایندھن نہ بن جائے۔
دیکھیں: کابل ملٹری اکیڈمی سے ہزارہ فوجی ٹرینرز کو برطرف کر دیا گیا
 
								 
								 
								 
								 
								 
								 
								 
															