افغانستان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی نے 7 اکتوبر 2025 کو ماسکو میں ہونے والے افغانستان سے متعلق ساتویں ’’ماسکو فارمیٹ‘‘ اجلاس میں پہلی بار باضابطہ شرکت کی۔ طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ افغانستان کسی علاقائی مکالمے میں مکمل رکن کی حیثیت سے شریک ہوا، جو طالبان کی عبوری حکومت کے لیے ایک سفارتی سنگِ میل قرار دیا جا رہا ہے۔
یہ اجلاس روس کی میزبانی میں منعقد ہوا، جس میں پاکستان، چین، بھارت، ایران، قازقستان، کرغزستان، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان کے نمائندوں کے علاوہ بیلاروس کے وفد نے بھی شرکت کی۔ اجلاس میں انسدادِ دہشت گردی، معاشی انضمام، انسانی امداد اور علاقائی استحکام پر تفصیلی تبادلۂ خیال کیا گیا۔
اقوام متحدہ کی جانب سے روس اور بھارت کے لیے پابندیوں میں نرمی
متقی کو 6 تا 16 اکتوبر روس اور بھارت کے دوروں کے لیے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے عارضی سفری رعایت دی گئی۔ یہ وہی اجازت ہے جو چند ماہ قبل پاکستان کے دورے کے لیے مسترد کر دی گئی تھی، جس سے اقوام متحدہ کی پالیسیوں کی مطابقت پر سوالات اٹھے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت کا افغانستان کے سفارتی عمل میں بڑھتا ہوا کردار اس فیصلے پر اثرانداز ہو سکتا ہے، کیونکہ یہ اجازت دہلی کی جانب سے ماسکو کے بعد متقی کو دعوت دینے کے ساتھ ہی دی گئی۔ اس پیشرفت سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت افغانستان سے متعلق علاقائی بیانیہ تشکیل دینے میں زیادہ اثرورسوخ حاصل کر چکا ہے، جبکہ پاکستان کی درخواست مسترد ہونے پر تنقید جاری ہے۔
روس کا طالبان حکومت کو باضابطہ تسلیم کرنا
ماسکو میں قیام کے دوران، متقی نے روسی وزیرِ خارجہ سرگئی لاوروف سے ملاقات کی، جنہوں نے طالبان حکومت کو باضابطہ تسلیم کرنے کا اعلان کیا — یہ کسی بڑی طاقت کی جانب سے پہلا اعتراف ہے۔ لاوروف نے اسے سیاسی اور معاشی تعاون کے لیے “غیر معمولی مواقع” کی راہ قرار دیا اور ماسکو فارمیٹ جیسے مکالموں کو علاقائی استحکام کے لیے اہم قرار دیا۔
متقی نے روسی فیصلے پر شکریہ ادا کرتے ہوئے اسے “تاریخی پیشرفت” قرار دیا جو انسدادِ منشیات، تجارت اور علاقائی ٹرانسپورٹ منصوبوں میں تعاون کے نئے دروازے کھولتی ہے۔ انہوں نے مزید واضح کیا کہ افغانستان کسی غیر ملکی فوجی اڈے، بشمول بگرام ایئر بیس، کو اجازت نہیں دے گا اور امریکا کی ممکنہ واپسی کے کسی بھی منصوبے کی مخالفت کی جائے گی۔
متقی کا خطاب اور سیکیورٹی کے دعوے
اپنے خطاب میں متقی نے علاقائی ممالک پر زور دیا کہ وہ کابل کے ساتھ “عملی رویہ” اپنائیں۔ ان کا دعویٰ تھا کہ افغانستان کی سرزمین سے کوئی دہشت گرد تنظیم کام نہیں کر رہی اور “تمام عناصر” ختم کر دیے گئے ہیں جو علاقائی امن کے لیے خطرہ تھے۔
تاہم، ان کے بیانات پاکستانی اور علاقائی انٹیلی جنس رپورٹس سے متصادم ہیں، جن کے مطابق تحریکِ طالبان پاکستان اور داعش خراسان اب بھی افغانستان میں سرگرم ہیں۔ متقی کا بیان اس وقت سامنے آیا جب حال ہی میں کراچی اور بلوچستان میں داعش خراسان کے تین رہنماؤں کی ہلاکت کی خبریں آئیں۔
انہوں نے الٹا ہمسایہ ممالک پر دہشت گردی کے تربیتی مراکز کی میزبانی کا الزام لگاتے ہوئے منشیات اور دہشت گردی کے خلاف مشترکہ علاقائی تعاون پر زور دیا۔
پاکستان کے سیکیورٹی خدشات اور مؤقف
پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے خصوصی نمائندہ محمد صادق نے افغانستان میں امن و استحکام کی حمایت کا اعادہ کیا اور افغان سرزمین سے سرگرم دہشت گرد گروہوں، خاص طور پر، بی ایل اے اور داعش خراسان کے خلاف اجتماعی علاقائی کارروائی پر زور دیا۔
انہوں نے ازبکستان۔افغانستان۔پاکستان ریلوے منصوبے اور چین۔پاکستان۔افغانستان سہ فریقی تعاون کو اقتصادی استحکام کی کوششوں کا حصہ قرار دیا۔
اجلاس کے موقع پر صادق اور متقی کے درمیان 90 منٹ طویل ملاقات ہوئی، جس میں تجارت، ٹرانزٹ اور سلامتی پر گفتگو ہوئی۔ دونوں نے سرحدی تجارت کے لیے عملی اقدامات، کسٹم اصلاحات اور ڈھانچاتی بہتری پر اتفاق کیا۔
پاکستان کے سابق سفیر برائے افغانستان منصور احمد خان نے ایچ ٹی این سے گفتگو میں کہا: “ماسکو اجلاس میں پاکستان اور افغانستان کے بیانات سے دونوں ممالک کے دہشت گردی کے بارے میں مختلف نقطۂ نظر ظاہر ہوئے ہیں۔” ان کے مطابق دونوں ممالک کو مؤثر انسدادِ دہشت گردی کے لیے سنجیدہ اور مسلسل مکالمے کی ضرورت ہے۔
مشترکہ اعلامیہ: انسدادِ دہشت گردی اور اقتصادی تعاون
اجلاس کے بعد جاری مشترکہ اعلامیے میں افغانستان کو ایک آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کرتے ہوئے تجارت، سرمایہ کاری، صحت اور زراعت کے میدان میں تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا گیا۔
اعلامیے میں واضح کیا گیا کہ دہشت گردی افغانستان اور خطے کے لیے “سنگین خطرہ” ہے، اس لیے دوطرفہ اور کثیرالجہتی سطح پر انسدادِ دہشت گردی کے اقدامات کو مضبوط بنایا جائے۔
شرکاء نے بیرونی طاقتوں کی جانب سے افغانستان یا اس کے اطراف فوجی اڈے قائم کرنے کی کسی بھی کوشش کو مسترد کر دیا، جو بظاہر امریکا کے سابق اڈوں کی طرف اشارہ تھا۔
بھارت کا بڑھتا ہوا کردار
ماسکو اجلاس کے فوراً بعد متقی کا بھارت کا دورہ خطے میں سفارتی توازن کی تبدیلی کو ظاہر کرتا ہے۔ بھارت، جو اب تک طالبان سے رسمی رابطوں سے گریز کرتا رہا، اب محدود سفارتی مصروفیات کے ذریعے عملی روابط آزما رہا ہے۔
اقوام متحدہ کی جانب سے پاکستان کے لیے اجازت مسترد کیے جانے اور بھارت و روس کے لیے منظوری دیے جانے کے تضاد نے اس تاثر کو تقویت دی ہے کہ بھارت کو افغانستان سے متعلق عالمی پالیسیوں پر بڑھتا ہوا اثر حاصل ہے۔
ماسکو فارمیٹ کے ساتویں اجلاس نے افغانستان میں استحکام کے لیے خطے کی مشترکہ دلچسپی کو تو اجاگر کیا، لیکن اس کے ساتھ ہی سفارتی رقابتیں بھی نمایاں ہو گئیں۔ روس کی جانب سے طالبان حکومت کا باضابطہ اعتراف یقیناً ایک اہم پیشرفت ہے، مگر افغانستان میں دہشت گرد گروہوں کی موجودگی، اقوام متحدہ کی پالیسیوں میں عدم توازن، اور پاکستان کے سیکیورٹی خدشات ابھی بھی خطے کے امن کے بڑے سوال بنے ہوئے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا متقی کی نئی سفارتی کوششیں واقعی علاقائی تعاون کو مضبوط بنائیں گی یا خطے میں طاقت کے نئے محاذ کھول دیں گی؟
دیکھیں: امیر خان متقی کی پروفیسر ابراہیم کی قیادت میں جماعت اسلامی کے وفد سے ملاقات