کابل 14جولائی 2025: افغان وزارت صنعت و تجارت کی رپورٹ کے مطابق 2025 کے ابتدائی چھ ماہ کے دوران افغانستان اور پاکستان کے درمیان تجارت کا حجم تقریباً ایک ارب ڈالر رہا۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ چھ ماہ کے دوران پاکستان نے افغانستان سے 277 ملین ڈالر مالیت کی اشیاء برآمد کیں، جبکہ افغانستان نے پاکستان سے 712 ملین ڈالر مالیت کی درآمدات ہوئیں۔
افغان حکومت کی جانب سے پاکستان کو بھیجی جانے والی اشیا میں کپاس، کوئلہ، کشمش، پھل اور سبزیاں شامل ہیں۔ جبکہ دوسری جانب افغانستان پاکستان سے خوراک، صنعتی مصنوعات اور دیگر ضروری اشیا درآمد کرتا ہے۔
اگرچہ جغرافیائی اعتبار سے پاکستان اور افغانستان قدرتی طور پر تجارتی شراکت دار ہیں، تاہم حالیہ برسوں میں ناخوشگوار مواقع کی وجہ سے پاک۔ افغان تجارتی روابط بے حد متاثر ہوئے ہیں۔ اس صورتحال نے نہ صرف تجارت کی رفتار کو سست کیا ہے بلکہ تاجر برادری کے اعتماد کو بھی متزلزل کیا ہے۔
افغان تاجروں کا کہنا ہے کہ اگر حکومتِ پاکستان تجارت کو سیاست سے الگ کرے، افغان مصنوعات پر کسٹم ڈیوٹی میں نرمی لائے اور سرحدی کسٹم چیک پوسٹوں پر مشترکہ کمیٹیاں قائم کی جائیں، تو دوطرفہ تجارت میں نمایاں اضافہ ممکن ہے۔ افغانستان پاکستان کے ساتھ تجارت کے لیے طورخم، غلام خان اور چمن (سپین بولدک) کی سرحدی راہداریوں کے ساتھ ساتھ کراچی اور واہگہ بندرگاہوں سے ٹرانزٹ کا بھی استعمال کرتا ہے۔ تاہم اکثر دیکھا گیا ہیکہ ان بندرگاہوں پر پاکستان کی جانب سے افغان تاجروں کو مختلف رکاوٹیں درپیش رہتی ہیں، جس کے باعث تجارتی سامان کی ترسیل تاخیر کا شکار ہوتی ہے اور تجارتی سرگرمیاں متاثر ہوتی ہیں۔
دونوں ممالک کے درمیان تجارت ایک ارب ڈالر کی حد تک پہنچنا مثبت اشارہ ہے۔ اگر مزید پائیدار پالیسیاں اپنائی جائیں، رکاوٹیں دور کی جائیں اور تاجروں کو اعتماد دیا جائے، تو یہ حجم کئی گنا بڑھ سکتا ہے۔ تجارت کو تنازع کا ہتھیار بنانے کے بجائے خطے میں استحکام، خوشحالی اور معاشی ترقی کا ذریعہ بنانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
اس صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے افغان تجّار کی جانب سے یہ مؤقف اپنایا گیا ہیکہ اگر حکومتِ پاکستان دوطرفہ تجارتی روابط میں سنجیدہ ہے تو تجارت کو سیاست کی بھینٹ نہ چڑھائے، افغان مصنوعات پر کسٹم ڈیوٹی میں نرمی لائے اور سرحدی کسٹم چیک پوسٹوں پر مشترکہ کمیٹیاں قائم کی جائیں، تو دوطرفہ تجارت میں نمایاں اضافہ ممکن ہے۔
افغانستان پاکستان کے ساتھ تجارت کے لیے طورخم، غلام خان اور چمن (سپین بولدک) کی سرحدی راہداریوں کے ساتھ ساتھ کراچی اور واہگہ بندرگاہوں سے ٹرانزٹ کا بھی استعمال کرتا ہے۔ تاہم افغان تجّار کی جانب سے یہ مؤقف اپنایا گیا ہیکہ ان بندرگاہوں پر پاکستان کی جانب سے افغان تاجروں کو مختلف مسائل درپیش رہتے ہیں، جس بناء پر تجارتی سامان کی ترسیل تاخیر کا شکار ہوتی ہے اور نتیجتاً تجارتی سرگرمیاں متاثر ہوتی ہیں۔
اگرچہ موجودہ اعداد و شمار تجارتی لحاظ سے ایک مثبت اشارہ ہے، لیکن سیاسی مسائل، ٹرانزٹ کی رکاوٹیں اور سرحدی پیچیدگیاں اب بھی تجارت کے راستے میں حائل ہیں۔ اگر ہمسایہ ممالک سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تجارت کو سیاسی اثرات سے محفوظ رکھنے پر متفق ہو جائیں، تو دو طرفہ تجارت میں بہتری ممکن ہے۔
دونوں ممالک کے درمیان تجارت ایک ارب ڈالر کی حد تک پہنچنا مثبت اشارہ ہے۔ اگر مزید پائیدار پالیسیاں اپنائی جائی اور تاجروں کو اعتماد دیا جائے، تو یہ حجم کئی گنا بڑھ سکتا ہے۔ تجارت میں اگر مثبت پیش رفت وقوع ہوتی ہیں تو نتیجتاً خطے میں استحکام، خوشحالی اور معاشی ترقی دیکھنے کو ملے گی ہے۔
دیکھیں: ایرانی حکام کی جانب سے افغان مہاجرین کی وسیع پیمانے پر بے دخلی