یورپ اپنے وسائل، مضبوط اداروں اور اقتصادی طاقت کے باوجود پناہ گزینوں کے بڑھتے ہوئے دباؤ کو سنبھالنے میں مشکلات کا سامنا کر رہا ہے۔ یورپی ممالک امن وامان اور معاشی استحکام کے باوجود پناہ گزینوں کو نکالنے پر مجبور ہیں۔ یہ صورتحال واضح کرتی ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کے لیے بھی پناہ گزینوں کے تحفظ کی عملی حدود موجود ہیں۔
پاکستان یورپی معیار کے مطابق کاربند
یورپ کے ترقی یافتہ ممالک وسائل کے باوجود پناہ گزینوں کی مکمل کفالت نہیں کر سکتے تو پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک سے یہ توقع رکھنا کہ وہ لاکھوں افغان پناہ گزینوں کی خود کفالت کرے، حقیقت پسندانہ اور زمینی حقائق سے میل نہیں کھاتا۔ پاکستان محدود وسائل، بڑھتی ہوئی آبادی، مہنگائی، بے روزگاری اور دہشت گردی جیسے داخلی چیلنجز کے ساتھ پناہ گزینوں کے اُمور بھی سنبھال رہا ہے۔
پاکستان کی دہائیوں پر محیط پالیسی
پاکستان کئی دہائیوں سے پناہ گزینوں کی میزبانی کرتا چلا آ رہا ہے جس کی مدت اور تسلسل یورپی ممالک سے کہیں زیادہ ہے۔ اس دوران پناہ گزینوں کو ہمیشہ عارضی پناہ دی گئی ہے مستقل قیام نہیں۔ یہی اصول اب یورپ بھی اپنا رہا ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان کی پالیسی عالمی معیارات کے مطابق ہے اور کسی بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی نہیں۔
خودمختار ریاستوں کو اپنے سرحدی کنٹرول اور پناہ گزینوں کی واپسی کے نفاذ کا حق حاصل ہے۔ یورپی ممالک بھی اسی حق کے تحت پناہ گزینوں کی تعداد کو منظم کر رہے ہیں۔ پاکستان بھی داخلی استحکام اور قومی مفاد کو ترجیح دیتے ہوئے پناہ گزینوں کی واپسی کے اقدامات کر رہا ہے۔
ماہرین کی رائے
ماہرین کے مطابق اگر ترقی یافتہ ممالک پناہ گزینوں کو نکالنے جیسے اقدامات کرسکتے ہیں تو ترقی پذیر ممالک پر اس معاملے میں دباؤ ڈالنا ناانصافی ہوگی۔ پاکستان کی جانب سے پناہ گزینوں کی واپسی عالمی قوانینن کے مطابق ہے اور یہ داخلی استحکام اور انسانی ہمدردی کے توازن کو برقرار رکھنے کی مؤثر حکمت عملی ہے۔