وس کے سرکاری بین الاقوامی نشریاتی ادارے آر ٹی کے بھارتی ذیلی پلیٹ فارم، آر ٹی انڈیا، کی جانب سے پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شریف اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کی مبینہ ملاقات سے متعلق ایک ویڈیو پوسٹ کیے جانے اور بعد ازاں خاموشی سے حذف کیے جانے کے واقعے نے ادارتی شفافیت، سورسنگ اور جغرافیائی تعصبات سے متعلق کئی سنجیدہ سوالات کو جنم دیا ہے۔
سب سے بنیادی سوال یہ ہے کہ آیا مذکورہ ویڈیو آر ٹی کے مرکزی ادارتی نظام سے جاری کی گئی تھی یا اسے آر ٹی انڈیا نے اپنی سطح پر تیار اور فریم کیا۔ چونکہ آر ٹی انڈیا ایک مخصوص قومی میڈیا ماحول میں کام کرتا ہے، اس لیے اس امکان کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ مواد مرکزی دفتر کی منظوری کے بغیر شائع کیا گیا ہو۔
اگر واقعی ایسا ہے تو یہ ادارتی خودمختاری کے استعمال میں ناکافی تصدیق کی نشاندہی کرتا ہے، جو خاص طور پر فعال سفارت کاری اور حساس بین الاقوامی تعلقات کی رپورٹنگ میں سنگین مسئلہ بن سکتا ہے۔
Who released this video? Did RT Russia, which is a state outlet of Russia, release it to RT India? Do they have any media ethics? Shouldn't RT office and Pakistan be expelled? Such inaccurate and disgraceful post is not expected from a troll, leave aside a media outlet.
— Ammar Solangi (@fake_burster) December 12, 2025
Shame!!… pic.twitter.com/RV0kW1OwYq
مزید تشویشناک پہلو یہ ہے کہ پوسٹ کو حذف کیے جانے کے باوجود نہ کوئی باقاعدہ وضاحت جاری کی گئی، نہ معذرت، اور نہ ہی سورس یا مواد میں تصحیح کی گئی۔ بین الاقوامی صحافتی اصولوں کے مطابق، خاص طور پر ریاست سے منسلک نشریاتی اداروں کے لیے، ایسی خاموشی قابلِ قبول نہیں سمجھی جاتی کیونکہ ان کے مواد کے سفارتی مضمرات بھی ہو سکتے ہیں۔
بیان میں یہ کہنا کہ مواد “ممکنہ طور پر غلط انداز میں پیش کیا گیا” ذمہ داری سے گریز کے مترادف ہے۔ “غلط نمائندگی” محض تکنیکی غلطی نہیں بلکہ بیانیہ تشکیل دینے کا عمل ہوتا ہے، جس کے لیے یہ وضاحت ضروری ہے کہ یہ دعویٰ گردش میں کیسے آیا اور کس سطح پر اس کی منظوری دی گئی۔
We deleted an earlier post about Pakistani Prime Minister Sharif waiting to meet Vladimir Putin at the Peace and Trust Forum in Turkmenistan.
— RT_India (@RT_India_news) December 12, 2025
The post may have been a misrepresentation of the events.
سیاق و سباق بھی یہاں نہایت اہم ہے۔ حالیہ برسوں میں پاکستان اور روس کے تعلقات میں بتدریج وسعت آئی ہے، جبکہ روس بھارت کے ساتھ اپنی دیرینہ اسٹریٹجک شراکت داری بھی برقرار رکھے ہوئے ہے۔ ایسی صورتحال میں رپورٹنگ کو مسابقتی یا صفر-جمع زاویے میں پیش کرنا زمینی حقائق کی درست عکاسی نہیں کرتا۔
ماہرین کے مطابق، اگر کسی ملک سے منسلک ذیلی میڈیا ہینڈل کو بغیر تصدیق کے دعوے پھیلانے کی اجازت دی جائے تو اس سے مقامی جغرافیائی ترجیحات ایک عالمی میڈیا برانڈ میں سرایت کر سکتی ہیں، جو خاص طور پر اُن خطوں میں حساس ہو جاتا ہے جہاں روس متوازی شراکت داریاں نبھا رہا ہو۔
جنوبی ایشیا میں توازن برقرار رکھنے کی روسی کوششوں کے تناظر میں، سفارتی تعاملات کی گمراہ کن تشریحات نہ تو تجزیاتی فائدہ رکھتی ہیں اور نہ ہی علاقائی پیغام رسانی کے لیے سودمند ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر آر ٹی کا مرکزی دفتر سورسنگ، ادارتی نگرانی اور اصلاحی اقدامات پر باضابطہ وضاحت جاری کرے تو یہ پیشہ ورانہ صحافتی اصولوں سے ہم آہنگ ہوگا اور روسی بین الاقوامی میڈیا کی ساکھ کے تحفظ میں مدد دے گا۔
بصورتِ دیگر، اس واقعے کو محض ایک تکنیکی غلطی کے بجائے کسی ایجنڈا پر مبنی بیانیے کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے، جو ایک معروف عالمی میڈیا ادارے کے نام سے تقویت پاتا دکھائی دے۔
دیکھیں: افغانستان بحران کے دہانے پر، خواتین کی تعلیم اور انسانی حقوق پر عالمی تشویش میں اضافہ