پاکستان نے افغانستان میں دہشت گرد ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے، جسے افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی کے دورہ بھارت سے جوڑنا محض طالبان پروپیگنڈا قرار دیا جا رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق ان حملوں کا مقصد افغان سرزمین سے سرگرم دہشت گرد گروہوں کو نشانہ بنانا تھا، جنہوں نے گزشتہ چند سالوں سے پاکستان کے خلاف کارروائیوں میں شدت پیدا کر دی ہے۔
پاکستانی سیکیورٹی حکام کے مطابق 7 اور 8 اکتوبر 2025 کی درمیانی شب اورکزئی ضلع میں ٹی ٹی پی کے حملے میں 11 پاکستانی اہلکار، جن میں ایک لیفٹیننٹ کرنل اور ایک میجر شامل تھے، شہید ہوئے۔ اس حملے کے جواب میں پاکستان نے 9 اکتوبر کو افغانستان کے اندر موجود دہشت گرد ٹھکانوں پر کارروائی کی۔ وزارتِ دفاع کے مطابق یہ کارروائی کسی سفارتی سرگرمی کے ردعمل میں نہیں بلکہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ایک قانونی دفاعی اقدام تھا۔
وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے واضح کیا کہ افغانستان ایک خودمختار ملک ہے اور وہ بھارت سمیت کسی بھی ملک سے تعلقات رکھ سکتا ہے، تاہم پاکستان کسی بھی ایسی سازش کو برداشت نہیں کرے گا جس میں افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کیا جائے۔ پاکستان نے متعدد بار اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ اس کی کارروائیاں صرف دہشت گردوں کے خلاف ہیں، افغان شہریوں یا طالبان حکومت کے اہلکاروں کو نشانہ نہیں بنایا گیا۔
رپورٹس کے مطابق 10 سے 11 اکتوبر کی شب طالبان فورسز نے کنڑ سے بہرامچہ تک پاکستانی سرحد پر حملے شروع کیے، جنہیں پاکستانی فورسز نے مؤثر جواب دیا۔ 11 سے 12 اکتوبر کی شب اسپن بولدک کے قریب بھی ایک حملہ کیا گیا، جس میں 15 سے زائد طالبان جنگجو ہلاک ہوئے۔ اس کے بعد 18 اکتوبر کو پاکستان نے خفیہ معلومات کی بنیاد پر خوست اور پکتیکا میں حافظ گل بہادر گروپ کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا، جس میں 40 سے 50 دہشت گرد، بشمول اہم کمانڈر ہلاک ہوئے۔
پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ یہ کارروائیاں اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 51 کے تحت اپنے دفاع کے حق کے مطابق ہیں۔ کابل حکومت کے لیے انتخاب واضح ہے. یا تو وہ اپنی سرزمین سے دہشت گرد نیٹ ورک ختم کرے یا خطے میں عدم استحکام کی مکمل ذمہ داری قبول کرے۔ پاکستان نے ہمیشہ مذاکرات اور سفارت کاری کو ترجیح دی ہے، لیکن اپنی خودمختاری کے دفاع میں کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار ہے۔