حال ہی میں ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 2019 میں جنرل قاسم سلیمانی اور شامی سیکورٹی اہلکار علی مملوک کے تعلقات میں اس وقت کشیدگی پیدا ہوئی جب سلیمانی نے صدر بشارالاسد کی مشیر لونا الشبل پر جاسوسی کا الزام عائد کیا تھا۔
عالمی تحقیقاتی اداروں کی رپورٹ کے مطابق جب لونا الشبل علی مملوک کے دفتر سے نکل رہی تھیں تو قاسم سلیمانی علمی مملوک سے پوچھا کہ یہ کون ہے؟ مملوک نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ لونا الشبل ہیں اور صدر بشارالاسد کی مشیر ہیں۔ اس پر قاسم سلیمانی کا کہنا تھا کہ وہ یہ جانتے ہیں کہ وہ مشیر ہیں لیکن اصل میں وہ کس کے لیے کام کرتی ہیں؟ اس موقع پر قاسم سلیمانی نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ لونا الشبل کی سابقہ تنخواہ 10 ہزار ڈالر تھی جبکہ موجودہ تنخواہ صرف 5 لاکھ شامی پاؤنڈ ہے، انہوں نے کہا کہ مختصر عرصے میں آدھی تنخواہ پر کام کرنا حیران کُن ہے۔ اور قاسم سلیمانی نے اسی بنیاد پر لونا الشبل کو جاسوس قرار دیا۔
رپورٹ کے مطابق جنرل قاسم سلیمانی اور صدر بشارالاسد کو خفیہ ذرائع سے آگاہ کیا گیا تھا کہ لونا الشبل جاسوس ہیں۔ پھر کچھ عرصے بعد انکی ایک پراسرار کار حادثے میں موت واقع ہوئی۔
حادثاتی موت یا کچھ اور؟
لونا الشبل کی گاڑی کو 2 جولائی 2024 کو دمشق دیماس ہائی وے پر حادثہ پیش آیا، اور چار دن بعد ان کا انتقال ہو گیا۔ رپورٹ کے مطابق بی ایم ڈبلیو گاڑی کی تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ انکی گاڑی کو معمولی نقصان پہنچا تھا، اسی بنیاد پر حادثے کی نوعیت پر مزید سوالات اٹھنے لگے۔
چشم دید گواہوں نے انکشاف کیا کہ یہ ایک بین الاقوامی نوعیت کا واقعہ تھا۔ اسی طرح ایک شاہد کے مطابق ایک گاڑی نے لونا الشبل کی گاڑی کو ٹکر ماری اور حملہ آور نے ان کے سر کے پچھلے حصے پر زخمی کیا جس سے وہ مفلوج ہو گئیں اور بالآخر انتقال کر گئیں۔
محافظوں کی گرفتاری
رپورٹ کے مطابق انہیں پہلے الصبورہ کلینک اور پھر الشامی ہسپتال منتقل کیا گیا۔ عینی شاہد کے مطابق ہسپتال میں کئی ذمہ دار حکام اور معروف کاروباری شخصیت محمد حامشو بھی موجود تھے۔ اس موقع پر لونا الشبل کے محافظوں نے سیکیورٹی فورسز کو حقائق سے اگاہ کرنا چاہا مگر انہیں فوراً گرفتار کر لیا گیا۔ رپورٹ میں یہ بھی مذکور ہے کہ صدر بشارالاسد کے دفتر سے ان کی موت کا اعلان تو جاری کیا گیا لیکن صدر بشارالاسد خود جنازے میں شریک نہیں ہوئے۔
دیکھیں: پاک افغان کشیدگی ختم کرنے کے لیے اقدامات جاری رہیں گے؛ امیرِ قطر