بین الاقوامی برادری کا اسرائیل-فلسطین تنازعے کے حوالے سے رویہ تیزی سے اور ایک علامتی انداز میں بدل رہا ہے۔ آئرلینڈ، ناروے، آسٹریلیا، برطانیہ، فرانس، بیلجیئم اور اسپین جیسے ممالک کی جانب سے فلسطین کو باضابطہ طور پر آزاد ریاست تسلیم کرنا محض سفارتی جملہ بازی نہیں، بلکہ یہ دہائیوں پرانی ناکام پالیسی کے خلاف ایک بھرپور احتجاج ہے جو انصاف پر مبنی امن فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اس نئی لہر نے واضح کر دیا ہے کہ روایتی “دو ریاستی حل” اب محض ایک کھوکھلا نعرہ بنتا جا رہا ہے۔
مذاکراتی عمل سے یکطرفہ تسلیم تک
مغربی ممالک ہمیشہ اس مؤقف کے حامل رہے کہ فلسطین کو ریاست کے طور پر تسلیم کرنا ایک کامیاب مذاکراتی عمل کے بعد کا انعام ہونا چاہیے۔ لیکن یہ مؤقف اسرائیلی بستیوں کی توسیع، مسلسل قبضے اور غزہ میں انسانی المیے کے بعد کمزور ہو گیا ہے۔ آسٹریلیا، کینیڈا، پرتگال اور برطانیہ کے اعلانات، اور بیلجیم، لکسمبرگ، مالٹا، انڈورا اور سان مارینو کی شمولیت اس بات کا اظہار ہے کہ اب انتظار کرنا بے سود ہے۔
اخلاقی دباؤ اور نئی نسل کی سوچ
اس سفارتی “ڈومینو ایفیکٹ” کے پیچھے اخلاقی محرکات، داخلی سیاست اور بدلتی جغرافیائی حقیقتیں کارفرما ہیں۔ غزہ میں جاری تباہی کے مناظر نے غیر تسلیم کی پالیسی کو اخلاقی طور پر مشکوک بنا دیا ہے۔ آئرلینڈ کے وزیرِاعظم سائمن ہیریس کے الفاظ میں: “یہ امید کو زندہ رکھنے کا معاملہ ہے۔” یہ مؤقف بالخصوص نوجوان نسل میں گونج رہا ہے جو پرانے سفارتی فارمولوں سے تھک چکی ہے۔
امریکہ اور بڑی طاقتوں کی مزاحمت
اس لہر کی مخالفت بھی کمزور نہیں۔ امریکہ کا ماننا ہے کہ فلسطینی ریاست صرف براہِ راست مذاکرات کے ذریعے قائم ہو سکتی ہے۔ وزیرِ خارجہ انٹونی بلنکن نے واضح کیا کہ یکطرفہ تسلیم دراصل مذاکراتی عمل کو نقصان پہنچا سکتا ہے اور اسرائیل کی سلامتی کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ جرمنی اور اٹلی بھی اسی سوچ کے حامل ہیں کہ تسلیم کرنے کا عمل ایک حتمی اور ناقابلِ واپسی قدم ہونا چاہیے، جو صرف مکمل سیاسی تصفیے کے بعد ممکن ہے۔
خطے پر اثرات
یہ پیش رفت پورے مشرقِ وسطیٰ کے لیے بھی اہمیت رکھتی ہے۔ عرب ممالک، حتیٰ کہ وہ جو اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لا چکے ہیں، بھی امن عمل کی سست رفتاری پر مایوس ہیں۔ یورپی ممالک کا یہ قدم خطے کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ موجودہ صورتِ حال ناقابلِ قبول ہے اور اسے جاری نہیں رکھا جا سکتا۔
حقیقت اور امکانات
یقیناً تسلیم کرنا کوئی جادوئی چھڑی نہیں۔ یہ نہ قبضہ ختم کرے گا اور نہ ہی فوری طور پر امن لے آئے گا۔ ایک قابلِ عمل فلسطینی ریاست کے لیے سرحدیں، متحدہ حکومت اور مستحکم معیشت بھی ضروری ہیں۔ تاہم، اس نئی لہر نے عالمی سفارت کاری کا منظرنامہ بدل دیا ہے۔ اس نے مسئلہ فلسطین کو ایک بار پھر عالمی ایجنڈے کے مرکز میں لا کھڑا کیا ہے اور اسرائیل و اس کے اتحادیوں پر دباؤ بڑھایا ہے کہ وہ فلسطینی عوام کے حقِ خودارادیت کو سنجیدگی سے تسلیم کریں۔
آخرکار، یہ اقدام بتاتا ہے کہ امن اب کوئی دور کی چیز نہیں بلکہ ایک عملی ہدف ہے—بس عالمی برادری کو مستقل اور جرات مندانہ اقدامات جاری رکھنے ہوں گے۔
دیکھیں: آزاد ریاست کا قیام فلسطینیوں کا حق ہے، سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ