خیبر پختونخوا کے اضلاع میں طالبان کھلے عام گھوم رہے ہیں جبکہ حکومتی اور سکیورٹی ادارے خاموش دکھائی دے رہے ہیں۔ باجوڑ دھماکہ نے ایک بار پھر ثابت کیا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد میں بڑی کوتاہی ہے۔ ان خیالات کا اظہار سینیئر سیاستدان میاں افتخار حسین نے ایچ ٹی این کے نمائندے سے خصوصی گفتگو میں کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ کوہاٹ سے ڈی آئی خان تک سرکاری اہلکاروں کا سفر رات کے وقت محفوظ نہیں رہا۔ پختون اور بلوچ بیلٹ میں روز بروز بدامنی بڑھ رہی ہے جبکہ عوام صرف امن کے خواہاں ہیں۔
دوسری طرف پاک-افغان تعلقات میں بہتری کے باوجود دہشتگردی کم ہونے کے بجائے بڑھ رہی ہے، جس سے سوال اٹھتا ہے کہ ان حملوں کے پیچھے کون ہے؟ سکیورٹی ذرائع بھی غیر محفوظ ہیں تو عوام کہاں محفوظ ہوگی؟ مقامی عمائدین نے حکومت اور سکیورٹی قیادت سے مطالبہ کیا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر مشترکہ ایجنڈے کے تحت فوری عمل کیا جائے تاکہ پختون بیلٹ میں پائیدار امن قائم ہو سکے۔
جب تک پاکستان اور افغانستان مل کر مشترکہ حکمت عملی نہیں بنائیں گے، دہشتگردی کا خاتمہ ممکن نہیں۔
پختون بیلٹ کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ وہ بار بار کی دہشتگردی سے تنگ آ چکے ہیں اور فوری امن کے خواہشمند ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ حکومت عملی اقدامات کرے نہ کہ صرف بیانات تک محدود رہے۔
عوامی حلقوں نے اقوام متحدہ اور عالمی برادری سے بھی مطالبہ کیا ہے کہ وہ پاک-افغان سرحدی علاقوں میں امن کے لیے کردار ادا کریں تاکہ پختون اور بلوچ علاقوں میں استحکام آ سکے۔