مظفرآباد سمیت آزاد جموں و کشمیر کے مختلف علاقوں میں عوامی احتجاج کی فضا بدستور قائم ہے اور اس تناظر میں مشترکہ عوامی ایکشن کمیٹی اور حکومت کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ مظفرآباد میں ہونے والے ان مذاکرات میں عوامی ایکشن کمیٹی کے وفد کی قیادت شوکت نواز میر، امجد علی خان ایڈووکیٹ اور مرکزی رکن انجم زمان اعوان کر رہے ہیں۔ دوسری جانب حکومتی وفد میں قومی اسمبلی کے اسپیکر راجہ پرویز اشرف، قمر زمان کائرہ، رانا ثناء اللہ سمیت دیگر رہنما شامل ہیں۔ حکومتی کمیٹی مظفرآباد ہیلی کاپٹر کے ذریعے پہنچی تاکہ براہ راست عوامی ایکشن کمیٹی کے رہنماؤں سے مذاکرات کر سکے اور موجودہ بحران کا حل تلاش کیا جا سکے۔
عوامی ایکشن کمیٹی نے مذاکرات کے دوران اپنے چند اہم مطالبات حکومتی وفد کے سامنے رکھے ہیں۔ ان مطالبات میں سب سے بنیادی مطالبہ آزاد جموں و کشمیر سے فورسز کی فوری واپسی اور ان کی اسلام آباد منتقلی ہے۔ کمیٹی نے زور دیا کہ فورسز کی موجودگی عوامی بے چینی کو بڑھا رہی ہے، جس کے خاتمے سے امن قائم کرنے میں مدد ملے گی۔ دوسرا اہم مطالبہ ان ایف آئی آرز کا اندراج ہے جو وزیراعظم آزاد کشمیر، وزیر داخلہ اور دیگر سرکاری اہلکاروں و عملے کے خلاف درج کی جائیں جنہیں عوامی ایکشن کمیٹی شہریوں کی ہلاکتوں کا ذمہ دار ٹھہراتی ہے۔

عوامی ایکشن کمیٹی نے وزیراعظم آزاد کشمیر کے فوری استعفے کا بھی مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ اس وقت موجودہ قیادت عوام کے اعتماد پر پوری نہیں اتر رہی۔ ساتھ ہی مظفرآباد کے سیکٹر کمانڈر کی معطلی اور ان کے خلاف تحقیقات کے آغاز کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔ ایک اور نکتہ جو کمیٹی نے اٹھایا وہ یہ تھا کہ ایف آئی اے کی ایگزٹ کنٹرول لسٹ اور اسٹاپ لسٹ سے عوامی ایکشن کمیٹی کے رہنماؤں، اوورسیز کشمیریوں اور صحافیوں کے نام نکالے جائیں تاکہ انہیں آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت مل سکے۔
یہ تمام مطالبات سامنے آنے کے بعد مذاکرات کا ماحول نہایت سنجیدہ اور نازک قرار دیا جا رہا ہے۔ کشمیری عوام اور بیرون ملک مقیم کشمیری کمیونٹی ان مذاکرات کے نتیجے کو بڑی گہری نظر سے دیکھ رہی ہے کیونکہ اس کے اثرات براہ راست ریاست کی آئندہ سمت پر مرتب ہوں گے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی واضح ہدایات جاری کی ہیں کہ حکومتی وفد مسئلے کا فوری اور دیرپا حل تلاش کرے اور اس حوالے سے سفارشات بلا تاخیر وزیر اعظم آفس کو پیش کرے۔
اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ مذاکرات کا یہ سلسلہ کس نتیجے پر پہنچتا ہے۔ عوامی ایکشن کمیٹی کی جانب سے سخت موقف اپنایا گیا ہے جبکہ حکومت نے مصالحت اور بات چیت کے ذریعے بحران حل کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے۔ حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے یہ توقع کی جا رہی ہے کہ فریقین لچک کا مظاہرہ کریں گے تاکہ آزاد جموں و کشمیر کے عوام کو سکون اور سیاسی استحکام فراہم کیا جا سکے۔
دیکھیں: وزیر دفاع خواجہ آصف کی آزاد کشمیر کے عوام سے پرامن رہنے کی اپیل