بلوچستان یونیورسٹی کی لیکچرر تاتیرہ اچکزئی، جو پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی کی صاحبزادی ہیں، کو ریاستِ پاکستان کے خلاف متنازع ٹویٹ پر شوکاز نوٹس جاری کیا گیا ہے۔
انھوں نے 16 اکتوبر کو ایکس (سابق ٹوئٹر) پر لکھا کہ “پاکستان اسرائیل کا سستا ٹیمو ورژن ہے، جس کے ہاتھ مغربی آقاؤں نے باندھ رکھے ہیں۔”
Pakistan is the Temu's cheapest version of Isreal, a hypocrite and Barbaric state whose hands are chained by the grt masters of the free world, whose hands are covered with the bloods of millions of Innocent people i.e The Baloch, Pashtuns and the Afghans#AfghanistanPakistanWar
— Thaterra Achakzai (@ThaterraAchak) October 16, 2025
یہ بیان نہ صرف اخلاقی بلکہ قانونی لحاظ سے بھی سنگین نوعیت رکھتا ہے، خصوصاً جب یہ الفاظ ایک سرکاری ملازمہ کی جانب سے آئے ہوں۔
یونیورسٹی کی کارروائی اور قانونی پہلو
بلوچستان یونیورسٹی کے اسسٹنٹ رجسٹرار(جنرل) کی جانب سے جاری شوکاز نوٹس میں کہا گیا ہے کہ یہ بیان ضابطہ اخلاق کی سنگین خلاف ورزی اور “مس کنڈکٹ” کے زمرے میں آتا ہے۔
خاتون لیکچرر سے پانچ دن میں وضاحت طلب کی گئی ہے، بصورت دیگر ان کے خلاف تادیبی کارروائی شروع کی جائے گی۔ یونیورسٹی کے رجسٹرار پروفیسر طارق جوگیزئی نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ تحقیقات جاری ہیں اور تاتیرہ اچکزئی کی برطرفی کا امکان خارج از امکان نہیں۔
بلوچستان میں ریاست مخالف سرگرمیوں کا تناظر
تاتیرہ اچکزئی کا بیان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب بلوچستان میں سب نیشنلزم، علیحدگی پسندی اور دہشت گردی ایک بار پھر سر اٹھا رہی ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق 2024 میں بلوچستان میں دہشت گردی کے 187 واقعات رپورٹ ہوئے، جن میں 297 افراد ہلاک اور 412 زخمی ہوئے۔ ان حملوں میں بلوچ لبریشن آرمی اور بلوچ ریپبلکن آرمی جیسے گروہ سرگرم رہے۔ صرف رواں سال کے ابتدائی نو ماہ میں 23 سکیورٹی اہلکار شہید ہوئے۔
یہ تمام گروہ بھارتی خفیہ ایجنسی را اور افغان سرزمین سے ملنے والی مدد کے ذریعے پاکستان کے خلاف کارروائیاں کر رہے ہیں۔
تعلیمی ادارے: علم کے مراکز یا نظریاتی اڈے؟
بلوچستان کے کئی تعلیمی اداروں میں حالیہ برسوں میں قوم پرستی اور ریاست مخالف بیانیے کے فروغ پر تشویش بڑھ رہی ہے۔ جامعہ بلوچستان، جامعہ تربت اور دیگر اداروں میں سب نیشنلزم کے اثرات متعدد اساتذہ و طلبہ تنظیموں تک پہنچ چکے ہیں۔ بلوچستان کے تعلیمی اداروں اور ملک کے دیگر حصوں میں زیر تعلیم کئی بلوچ طلبا و اساتذہ خودکش حملوں اور بی ایل اے کی حمایت و حصہ ہونے کا اعتراف کر چکے ہیں۔
اس تناظر میں، ایک سرکاری لیکچرر کا پاکستان کو “صیہونی ریاست” قرار دینا صرف “رائے کی آزادی” نہیں، بلکہ ایک منظم نظریاتی ایجنڈے کا تسلسل محسوس ہوتا ہے، جو نوجوان ذہنوں کو ریاست مخالف سمت میں موڑنے کی کوشش ہے۔
محمود اچکزئی اور ریاست مخالف بیانیہ
محمود خان اچکزئی ماضی میں بھی پاکستانی فوج، آئین اور ریاستی اداروں پر سخت اور بلاوجہ تنقید کرتے رہے ہیں۔
تحریکِ تحفظِ آئین پاکستان کے پلیٹ فارم سے ان کی تقریروں میں افغان نوازی، فاٹا انضمام کی مخالفت اور فوج مخالف بیانات عام ہیں۔ تاتیرہ اچکزئی کا یہ بیان اسی بیانیے کی توسیع معلوم ہوتا ہے۔
نتیجہ: آزادی رائے یا دشمنی؟
اکیڈمک آزادی کا مقصد علمی تحقیق ہے، ریاست دشمنی نہیں۔ جب اساتذہ خود قومی سلامتی کے خلاف بیانیہ اپناتے ہیں، تو یہ نہ صرف تعلیمی ماحول بلکہ قومی وحدت کے لیے خطرناک ہے۔
ریاست کو چاہیے کہ وہ جامعات میں بیانیے نگرانی کا مؤثر نظام متعارف کرائے، تاکہ اکیڈمک ادارے دشمن قوتوں کے لیے بیانیہ جنگ کا میدان نہ بنیں۔
ریاست مخالف سوچ کے مقابلے میں خاموشی اختیار کرنا دراصل خود ریاست کی کمزوری ہے۔ بلوچستان کے امن اور پاکستان کے استحکام کے لیے قانونی اور فکری دونوں محاذوں پر ایک مضبوط جواب ناگزیر ہے۔