امریکہ نے حال ہی میں ’دی ریزسٹنس فرنٹ‘ (ٹی آر ایف) کو دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہوئے اسے “اسپیشلی ڈیزینیٹڈ گلوبل ٹیررسٹ ” فہرست میں شامل کیا ہے۔ یہ فیصلہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں 22 اپریل کو پیش آئے ایک حملے کے بعد کیا گیا جس میں 26 سیاح مارے گئے تھے۔
بھارتی میڈیا نے اس حملے کی ذمہ داری ٹی آر ایف پر عائد کی تھی جس کی اس تنظیم کی جانب سے تردید بھی کی گئی تھی تاہم اس تنظیم کے وجود، سرگرمیوں یا کسی بھی واضح ثبوت کی عدم موجودگی نے اس اقدام پر کئی سوالات اٹھا دیے ہیں۔ ایک ایسی تنظیم جس کا نہ کوئی رکن گرفتار ہوا، نہ کوئی ویڈیو یا بیانات سامنے آئے اور نہ ہی اس تنظیم کا کوئی خفیہ نیٹ ورک بے نقاب ہوا۔
بھارت نے پہلگام حملے کی ذمہ داری اس تنظیم پر عائد کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف آپریشن سندور لانچ کیا اور عام شہری آبادی کو نشانہ بنایا جس کا جواب پاکستان نے بروقت دیا اور بھارت سے 6 طیارے مار گرائے۔ کچھ دن بعد پاکستان نے اس آپریشن کا جواب دیتے ہوئے آپریشن بنیان مرصوص بھی لانچ کیا اور بھارت کی 26 ایئر بیسز اور ائیر ڈیفنس سسٹم کو نشانہ بنایا۔
میدان جنگ میں عبرتناک شکست اور اس کے بعد سفارتی میدانوں میں بھارت کو مسلسل ہزیمت اٹھانا پڑی اور اب ممکنہ فیس سیونگ کیلئے بھارت نے امریکہ کی مدد حاصل کرتے ہوئے ٹی آر ایف نامی تنظیم پر پابندی عائد کروائی ہے۔ تاہم اس تنظیم کے حوالے سے کچھ سنجیدہ سوالات اب تک جوں کے توں موجود ہیں۔
بھارت کا پرانا بیانیہ: دہشت گردی یا مزاحمت؟
یہ پہلا موقع نہیں کہ کسی غیر معروف یا خیالی تنظیم کو کشمیری مزاحمت سے جوڑ کر عالمی سطح پر بھارت نے اپنا مؤقف منوانے کی کوشش کی ہو۔ اس سے قبل بھی بھارت نے پیپلز اینٹی فاشسٹ فرنٹ ، اسلامک اسٹیٹ جموں و کشمیراور یونائیٹڈ لبریشن فرنٹ – کشمیر جیسے ناموں کو پیش کر کے دنیا کو یہ تاثر دیا کہ وادی میں سرگرم تحریکیں دہشت گردی سے جڑی ہوئی ہیں۔
تاہم ان گروہوں کے نہ واضح ترجمان سامنے آئے، نہ مستقل بیانیے، اور نہ ہی ان کی سرگرمیوں کی کوئی مستقل نوعیت ظاہر ہو سکی۔ عالمی سطح پر ماہرین اس رجحان کو “گھوسٹ گروپ بیلٹ” یعنی خیالی تنظیموں کی پٹی قرار دیتے ہیں جو صرف پراپیگنڈا کی غرض سے بنائی جاتی ہیں۔
تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ ٹی آر ایف پر پابندی کا مقصد اصل مسئلے یعنی مقبوضہ کشمیر میں سیاسی بے چینی اور آزادی کی خواہش سے توجہ ہٹانا ہے۔ اگر ایسی تنظیمیں واقعی متحرک ہیں، تو ان کے خلاف کارروائیاں کیوں سامنے نہیں آتیں؟ اگر وہ خطرناک نیٹ ورک چلاتی ہیں تو ان کے شواہد دنیا کے سامنے کیوں نہیں رکھے جاتے؟
عالمی برادری کا کردار 
ان تمام اقدامات سے ایک سوال ضرور ابھرتا ہے: کیا یہ عالمی سطح پر ایک سیاسی بیانیہ مسلط کرنے کی کوشش ہے، جس کے ذریعے کشمیری عوام کی جدوجہد کو دہشت گردی کے خانے میں ڈال کر ان کے جائز سیاسی مطالبات کو دبایا جا سکے؟
بھارت اس سے قبل بھی تحریک آزادی کشمیر کو دہشت گردی سے جوڑ کر عالمی سطح پر اسے ناکام بنانے کی کوشش کرتا آیا ہے مگر ہمیشہ ناکام رہا ہے۔ 78 سالہ تحریک آزادی کشمیر آج تک دبائی نہیں جا سکی اور نہ اسے دہشت گردی یا کسی دوسری ملک کی فنڈنگ سے جوڑا سکا ہے۔ یہ تحریک خالصتا کشمیری عوام کی تحریک ہے جس کیلئے لاکھوں بے گناہ کشمیریوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
ٹی آر ایف کو دہشت گرد قرار دینا اگر صرف ناکامی چھپانے کیلئے ہوا ہے تو یہ اقدام بھارت کی خارجہ پالیسی کو سہارا دینے کی ایک کوشش معلوم ہوتا ہے، جو پہلگام جیسے واقعات پر اپنی شکست کو چھپانا چاہتی ہے۔
یہ بھی واضح ہے کہ آزادی کی تحریکیں پابندیوں اور پراپیگنڈا سے ختم نہیں ہوتیں۔ کشمیر کے عوام کی آواز، خواہ کتنی ہی دبائی جائے، کسی نہ کسی شکل میں ابھرتی رہے گی کیونکہ مسئلہ سیکیورٹی کا نہیں، سیاسی اور انسانی حقوق اور خالص نظریے کا ہے۔
 
								 
								 
								 
								 
								 
								 
								 
															