وزارتِ خارجہ میں ہفتہ وار میڈیا بریفنگ کے دوران ترجمان نے رواں ہفتے کی مجموعی سفارتی سرگرمیوں سے آگاہ کیا۔ ترجیحات میں سب سے نمایاں انڈونیشیا کے صدر پرابووو سبانتو کا 8–9 دسمبر 2025 کا دورہ پاکستان رہا، جنہیں وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف کی دعوت پر خوش آمدید کہا گیا۔
وفود کی سطح پر مذاکرات میں دونوں ممالک نے تجارت، سرمایہ کاری، دفاع، تعلیم، صحت، ٹیکنالوجی، حلال صنعت، آئی ٹی، زراعت، اور اسکل ڈیویلپمنٹ جیسے اہم شعبوں میں تعلقات کو نئی بلندیوں تک لے جانے کے عزم کا اظہار کیا۔ ملاقات میں کشمیر اور غزہ کی صورتحال بھی زیرِ بحث آئی جبکہ وزیراعظم نے صدر سبانتو کے فلسطین کے لیے مضبوط انسانی مؤقف کو سراہا۔
دورے کے اختتام پر دونوں ممالک نے آٹھ اہم معاہدوں اور مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط کیے جن میں اعلیٰ تعلیم، اسکالرشپس، صحت، حلال سرٹیفکیشن، چھوٹے کاروباروں کے فروغ، آرکائیوز اور انسدادِ منشیات شامل ہیں۔ صدرِ پاکستان نے صدرِ انڈونیشیا کو نشانِ پاکستان بھی عطا کیا۔
مشترکہ اعلامیے میں 75 سالہ سفارتی تعلقات, تجارت کی راہ میں رکاوٹوں کے خاتمے، اسلامی فنانس، سروسز سیکٹر اور حلال انڈسٹری میں تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا گیا۔ اعلامیے میں کشمیر اور فلسطین کی صورتحال کا خصوصی ذکر اور بین الاقوامی فورمز اے سیان، او آئی سی، ڈی-8 اور اقوامِ متحدہ میں مشترکہ تعاون کا اعادہ کیا گیا۔
ترجمان نے بتایا کہ نائب وزیرِ اعظم/وزیرِ خارجہ نے ایران کے وزیرِ خارجہ عباس عراقچی اور سعودی وزیرِ خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان سے الگ الگ ٹیلی فونک گفتگو کی۔ ایران کے ساتھ بات چیت میں دوطرفہ تعلقات اور خطے کی صورتحال، جبکہ سعودی عرب سے گفتگو میں غزہ میں یکطرفہ اسرائیلی اقدامات، خاص طور پر رفح کراسنگ کی بندش پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا۔
دونوں وزرائے خارجہ نے انسانی امداد کی بلا تعطل فراہمی اور دیرپا امن کی ضرورت پر زور دیا۔
ترجمان نے بھارتی وزیرِ خارجہ کے پاکستان مخالف بیانات کو “بے بنیاد، اشتعال انگیز اور غیر ذمہ دارانہ” قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان ایک ذمہ دار ریاست ہے اور بھارتی پروپیگنڈا خطے میں اپنی جارحانہ پالیسیوں سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے۔
افغانستان کے حوالے سے ترجمان نے واضح کیا کہ پاکستان کو افغان سرزمین سے ہونے والی دہشت گردی پر مستقل تشویش ہے اور ماضی کے وعدے پورے نہ ہونے کے باعث پاکستان نے تحریری ضمانتیں مانگی ہیں۔ انہوں نے حالیہ افغان علما کے “سرحد پار عسکری کارروائیوں کے خلاف فتوے” کو مثبت مگر ناکافی قرار دیا۔
ترجمان کے مطابق پاکستان نے افغانستان کے لیے انسانی امداد کی ترسیل کی اجازت دے دی ہے، چاہے کابل اسے قبول کرے یا نہیں۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کا امداد سے انکار ’’عالمی تاریخ میں ناقابلِ یقین‘‘ ہو گا۔
بریفنگ میں امریکی کانگریس کے بعض اراکین کے پاکستان کے حوالے سے خط پر بھی بات ہوئی۔ ترجمان نے بتایا کہ پاکستانی سفارت خانہ واشنگٹن میں قانون سازوں سے مسلسل رابطے میں ہے اور پاکستان کا مؤقف واضح کیا جا رہا ہے۔
ترجمان نے امریکہ کی جانب سے پاکستان کے F-16 بیڑے کے 686 ملین ڈالر کے اپ گریڈ پیکج کا خیر مقدم کیا۔ اسی طرح پاکستان–سعودیہ اقتصادی فریم ورک میں پیش رفت کے لیے وزیرِ خزانہ کے جاری دورہ سعودی عرب کا ذکر بھی کیا۔
کشمیر کے حوالے سے ترجمان نے ایک کشمیری ماں کی دور دراز سفر کی تکلیف دہ کہانی کو بھارت کے غیر انسانی اقدامات کی مثال قرار دیتے ہوئے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں گرفتاریوں، ٹارچر، گھروں کی مسماری، صحافیوں اور حقوقِ انسانی کارکنوں کی اذیت اب عالمی سطح پر تسلیم شدہ حقائق ہیں۔ پاکستان کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کی حمایت جاری رکھے گا۔
ایک سوال پر ترجمان نے کہا کہ پاکستان اور برطانیہ کے درمیان باضابطہ ایکسٹرڈیشن معاہدہ نہیں لیکن انفرادی کیس نمٹائے جا سکتے ہیں۔ سارک کے مستقبل پر انہوں نے کہا کہ اس فورم کو سب سے زیادہ نقصان بھارت کی ہٹ دھرمی سے پہنچ رہا ہے۔
بھارت اور اسرائیل کے عسکری تعلقات پر بات کرتے ہوئے ترجمان نے کہا کہ بھارت کی جانب سے دہشت گرد گروہوں کی پشت پناہی کے شواہد پاکستان کے پاس موجود ہیں اور انہیں اقوامِ متحدہ سمیت عالمی فورمز پر بھی پیش کیا گیا ہے۔
بریفنگ کے آخر میں ترجمان نے کہا کہ پاکستان خطے کے امن، استحکام، ترقی اور سفارت کاری کے ذریعے تنازعات کے حل کے لیے مستقل کردار ادا کرتا رہے گا۔