آپریشن بلیو اسٹار: بھارتی ریاست کا سکھ شناخت پر حملہ
سکھوں نے لاہور میں شمعیں روشن کیں 1984 کے قتل عام پر انصاف کا مطالبہ
بھارت 11 جون 2025
آپریشن بلیو اسٹار ایک ایسا خونی باب ہے جس نے نہ صرف سکھ مذہب کی روحانی اساس کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا، بلکہ اسے ریاستی جبر کی بدترین مثال بنا دیا۔ جون 1984 کے پہلے ہفتے میں، بھارتی فوج نے امرتسر میں واقع سکھوں کے مقدس ترین مقام گولڈن ٹیمپل پر حملہ کیا۔ حکومت نے اس حملے کو “دہشت گردوں کے خاتمے” کا جواز دے کر پیش کیا لیکن حقیقت میں یہ ایک منظّم قتل عام تھا جس میں 5,000 سے زائد سکھوں جن میں خواتین، بچے اور بے گناہ زائرین شامل تھے
کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔
متبرّک عبادت گاہ کو میدان جنگ میں بدل دیا گیا
بھارتی فوج نے صرف گولڈن ٹیمپل میں داخل ہو کر کارروائی نہیں کی بلکہ ٹینکوں، توپوں اور مارٹر گولوں سے اسے تباہ کیا۔ حملہ اُس دن کیا گیا جب سکھ گورو ارجن دیو جی کی شہادت کی یاد میں بڑی تعداد میں زائرین موجود تھے۔ اکال تخت، سکھ مذہب کا اعلیٰ ترین ادارہ، ملبے کا ڈھیر بن گیا۔ سِکھ ریفرنس لائبریری جہاں صدیوں پرانے قیمتی نسخے رکھے گئے تھے جلا دی گئی۔ آپریشن کا ہدف جَرنیل سنگھ بھنڈراں والے بتایا گیا، جو سکھوں کے آئینی حقوق اور خودمختاری کا مطالبہ کر رہے تھے۔ لیکن مذاکرات کے بجائے ریاست نے طاقت کا بےرحمانہ استعمال کیا۔ آپریشن بلیو اسٹار سکھوں کے لیے محض ایک فوجی کارروائی نہیں بلکہ ایک مذہبی توہین اور اجتماعی ظلم کی علامت بن گیا۔
بغاوت، قتل عام کی قیمت
اس سفاکانہ حملے کے بعد کے بعد سکھ برادری میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی، حتیٰ کہ بھارتی فوج کے اندر بھی 2,600 سے زائد سکھ فوجیوں نے بغاوت کر دی۔ رام گڑھ میں ایک بغاوت کے دوران بریگیڈیئر آر ایس پوری کو قتل کر دیا گیا۔ ان بہادر سپاہیوں کو بغاوت کے جرم میں کورٹ مارشل کیا گیا یا خاموش کر دیا گیا۔ اکتوبر 1984 میں جب وزیر اعظم اندرا گاندھی کو اُن کے سکھ محافظوں نے قتل کیا تو ریاستی سرپرستی میں دہلی میں تین دن تک ہولناک فسادات ہوئے۔ 3,000 سے زائد سکھوں کو زندہ جلا دیا گیا، قتل کیا گیا اور خواتین کی اجتماعی بے حرمتی کی گئی۔
ناناوتی کمیشن اور دیگر عدالتی تحقیقات کے باوجود جگدیش ٹائٹلر اور سجن کمار جیسے ذمہ داران کو سزا نہیں ملی۔ انصاف آج تک سکھ برادری کے لیے ایک خواب ہی رہا۔
عالمی سطح پر سکھوں کی جدوجہد
آپریشن بلیو اسٹار کے زخم آج بھی سکھ برادری کے دل میں تازہ ہیں۔ ہزاروں سکھوں نے بھارت سے نقل مکانی کی۔ معاشی بہتری کے لیے نہیں، بلکہ جان بچانے کے لیے۔ برطانیہ، امریکہ اور کینیڈا میں آج بھی سکھ کمیونٹیاں خالصتان ریفرنڈم میں ووٹ ڈال رہی ہیں۔
شدت پسندی کے لیے نہیں ،بلکہ ریاستی جبر کے خلاف آواز بلند کرنے کے لیے۔
ادھر بھارت نے اپنی پالیسی سرحدوں سے باہر بھی منتقل کر دی ہے۔ کینیڈا میں سکھ رہنما ہر دیپ سنگھ نجار کے قتل اور امریکہ میں گُرپتوَنٹ سنگھ پنوں پر حملے کی منصوبہ بندی کی خبریں اسی جبر کی عالمی توسیع کو ظاہر کرتی ہیں۔ یہ ہلاکتیں 1984 کے مظالم کی بازگشت معلوم ہوتی ہیں جو اب عالمی سطح پر سنائی دے رہی ہے۔
آپریشن بلیو اسٹار آج بھی بھارت کے سیکولرزم کے دعووں پر ایک گہرا سوالیہ نشان ہے۔ انصاف، جوابدہی اور سچائی کی گونج نہ صرف پنجاب سے بلکہ دنیا بھر کی سکھ برادری سے بلند ہو رہی ہے۔ 2025 میں یہ صدا پہلے سے زیادہ طاقتور ہو چکی ہے۔
دیکھیئے واخان بارڈر کی تکمیل قریب چین سے براہ راست تجارت