روس نے دودہائیاں قبل ۲۰۰۳ میں طالبان کو ایک دہشت گرد گروہ قرار دیا تھا، لیکن اس سال اپریل۲۰۲۵ میں طالبان کو اپنی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست سے خارج کر دیا، اور کچھ روزقبل باقاعدہ طور پر روس نےیہ اعلان کیا کہ وہ امارت اسلامیہ افغانستان کو تسلیم کرتا ہے۔
افغانستان کو تسلیم کرنا
کو امریکہ و نیٹو کی افواج ۱۵اگست ۲۰۲۱ کو افغان سرزمین سےجانےپرمجبورہوئے، اور اسی ماہ ۳۱اگست کو آخری امریکی فوجی ۲۰سالہ جنگ کے بعد افغانستان سےاپنی سرزمین گیا۔ اسی دوران، دوحہ میں امریکہ، نیٹو اور طالبان کے درمیان ہونے والے معاہدے کے بعد طالبان نے افغانستان میں اقتدار سنبھالا اور اعلان کیا کہ وہ افغان ریاست میں اسلامی نظام نافذ کریں گے۔
روس کا اہم قدم
اس سلسلے میں، پیر ۲جولائی ۲۰۲۵افغان تاریخ کا ایک اہم دن ہے، کیونکہ اس روز روس کے سفیر نے کابل میں امارت اسلامی افغانستان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی سے اہم ملاقات کی، اور روس کی جانب سے باضابطہ طور پر اعلان کیا گیا کہ وہ امارت اسلامیہ افغانستان کو تسلیم کرتا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق روس طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے والا پہلا بڑا ملک بن گیا ہے۔ روسی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ اس پیش رفت سے دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ تعلقات مزید بہترہونگے۔
روس۔افغانستان، تاریخی پسِ منظر
یاد رہے جب ۱۵اگست ۲۰۲۱کو امریکہ اور نیٹو کی افواج افغان سرزمین چھوڑنے پرمجبورہوئےتو طالبان نے دہائیوں کئیں دہائیوں پرمحیط اپنی قربانیوں کےثمرکےطورپرافغان ریاست پر کنٹرول حاصل کر لیا،مزید یہ کہ باقاعدہ طورپراپنی حکومت کا بھی اعلان کیا۔ امریکہ کے افغان سرزمین چھوڑنےکےبعد افغانستان کے ساتھ تعلقات بحال کیے۔ یاد رہےآج سےتقریباً دو سال قبل روسی صدر پیوٹن نے کہا تھا کہ روس دہشت گردی کے خلاف افغان طالبان کواپنا اہم اتحادی سمجھتا ہے۔
بین الاقوامی ماہرین
ماہرین کا گُمان ہے کہ روس طالبان کے ساتھ تعلقات مین بہتری چاہتا ہے، کیونکہ افغان ریااست سے مشرق وسطیٰ تک کئی ممالک انتہاء عسکریت پسند گروہوں کا شکار ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق روس کا یہ اقدام اسلامی امارت افغانستان کے لیے ایک سیاسی،سفارتی کامیابی کےطورپر ہے۔
افغان حکام روس کے مذکورہ اعلان کو بڑی اہمیت کی نگاہ سےدیکھ رہےہیں، ذرائع کاکہنا ہیکہ افغان طالبان روس کے ساتھ اپنے سیاسی و اقتصادی تعلقات کو مزید بہتر کرنےکےاقدامات اٹھارہےہیں۔