امریکی شخصیات نشانے پر، القاعدہ کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے
یمن میں القاعدہ کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے، جس نے عالمی سطح پر تشویش پیدا کر دی ہے۔ جزیرہ نما عرب میں القاعدہ (AQAP) کے نئے سربراہ سعد بن عاطف الاولکی نے حال ہی میں ایک ویڈیو جاری کی ہے، جس میں انہوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، کاروباری شخصیت ایلون مسک، اور دیگر اعلیٰ امریکی حکام کو نشانہ بنانے کی دھمکیاں دی ہیں۔ یہ دھمکیاں امریکا کی جانب سے جاری غزہ جنگ میں اسرائیل کی حمایت کے ردعمل میں سامنے آئی ہیں۔
یہ ویڈیو صدر ٹرمپ، ایلون مسک، سینیٹر جے ڈی وینس، وزیر خارجہ مارکو روبیو اور وزیر دفاع پیٹ ہیگستھ کی تصاویر پر مشتمل ہے، ساتھ ہی مسک کی کمپنیوں جیسے ٹیسلا اور اسپیس ایکس کے لوگوز بھی شامل ہیں۔ سعد الاولکی نے کہا: “جواب دینا جائز ہے” اور خبردار کیا کہ “اب کوئی سرخ لکیر باقی نہیں رہی۔” اس نے اکیلے حملے کرنے والے دہشتگردوں کو مصر، اردن اور امیر خلیجی ممالک کے رہنماؤں کو قتل کرنے کی ترغیب دی۔
یمن میں حوثیوں کے ساتھ مقابلہ، شدت پسند گروہوں کی رسہ کشی
سعد الاولکی کی یہ مہم صرف امریکا کے خلاف نہیں، بلکہ یمن میں حوثیوں کے خلاف بھی ہے۔ حوثی باغیوں نے حالیہ دنوں میں اسرائیل پر میزائل حملے کیے اور بحیرہ احمر میں بحری جہازوں کو نشانہ بنایا۔ القاعدہ خود کو فلسطینیوں کا اصل محافظ ظاہر کر کے حوثیوں سے زیادہ توجہ حاصل کرنا چاہتی ہے۔ یہ مقابلہ علاقائی سطح پر عدم استحکام میں مزید اضافہ کر رہا ہے۔
امریکی حکومت نے فوری ردعمل دیتے ہوئے سعد الاولکی کے سر کی قیمت 60 لاکھ ڈالر مقرر کر دی ہے۔ کبھی AQAP کو القاعدہ کی سب سے خطرناک شاخ سمجھا جاتا تھا، جو بینک ڈکیتی، اسلحہ کی اسمگلنگ اور اغواء برائے تاوان کے ذریعے مالیات حاصل کرتی تھی۔ مگر امریکی ڈرون حملوں نے تنظیم کو خاصا کمزور کر دیا تھا۔ اب، غزہ کی جنگ نے انہیں ایک نیا موقع فراہم کیا ہے کہ وہ دوبارہ اثر و رسوخ حاصل کریں۔
عالمی سیکیورٹی کے لیے چیلنج، القاعدہ کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے
امریکی انٹیلیجنس ایجنسیز نے سیکیورٹی انتظامات سخت کر دیے ہیں۔ ویڈیو میں ذکر شدہ حکام کی حفاظت بڑھا دی گئی ہے، اور آن لائن شدت پسند سرگرمیوں کی نگرانی میں اضافہ کیا گیا ہے۔
اگرچہ یمن امریکا سے جغرافیائی طور پر دور ہے، مگر وہاں القاعدہ کا دوبارہ فعال ہونا نہ صرف مشرق وسطیٰ بلکہ عالمی سلامتی کے لیے ایک بڑا خطرہ بن سکتا ہے۔ یہی القاعدہ کا خطرہ ہے جو دنیا کے مختلف حصوں میں عدم استحکام کا باعث بن سکتا ہے۔
نتیجتاً دنیا بھر کو الرٹ رہنے کی ضرورت ہے۔ حالات مسلسل بدل رہے ہیں، اور اس بڑھتے خطرے سے نمٹنے کے لیے عالمی سطح پر مربوط اور سنجیدہ حکمت عملی کی ضرورت ہے۔