مہاجرین کی نظراندازی: بھارت میں پاکستانی ہندو پناہ گزینوں سے کیے گئے کھوکھلے نکلے۔

پاکستانی ہندو پناہ گزین بھارت میں مہاجرین کی نظراندازی کا شکار ہیں خراب حالات، شہریت میں تاخیر اور سرکاری وعدوں کی خلاف ورزی۔

1 min read

مہاجرین کی نظراندازی کا شکار ہیں خراب حالات، شہریت میں تاخیر اور سرکاری وعدوں کی خلاف ورزی۔

پاکستانی ہندو پناہ گزین بھارت میں مہاجرین کی نظراندازی کا شکار ہیں

مہاجرین کی نظراندازی تلخ حقیقت

بھارت خود کو ہمسایہ ممالک سے مذہبی مظلوم اقلیتوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ کے طور پر پیش کرتا ہے لیکن مہاجرین کی نظراندازی ایک مختلف اور تلخ حقیقت ظاہر کرتی ہے۔ شہریت ترمیمی قانون (CAA) کا مقصد غیر مسلم پناہ گزینوں کو تحفظ دینا تھا خصوصاً پاکستانی ہندوؤں کو لیکن یہ وعدے زیادہ تر ادھورے ہی رہے۔

مئی میں سندھ سے تعلق رکھنے والے پاکستانی ہندو مہاجر سنجے کمار اور ان کی بیوی سپنا کماری کو ممبئی میں قتل کر دیا گیا۔ یہ سانحہ 2020 میں جودھپور میں 11 ہندو مہاجرین کی پراسرار موت کے بعد پیش آیا، جس کی تحقیقات آج تک مکمل نہیں ہوئیں۔ ان واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ بھارت میں بھی تحفظ کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔

جھوٹے وعدے

شمالی بھارت میں 80,000 سے زائد پاکستانی ہندو مہاجر غیر رسمی کیمپوں میں زندگی گزار رہے ہیں۔ ان میں سے اکثر کو نہ تو شہریت ملی ہے اور نہ ہی شناختی دستاویزات۔ یہ کیمپ صاف پانی، بجلی، صفائی اور طبی سہولیات سے محروم ہیں۔

بچے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ کاغذات نہ ہونے کی وجہ سے وہ اسکولوں میں داخلہ نہیں لے سکتے، جس سے ایک پوری نسل تعلیم اور بہتر مستقبل سے محروم ہو رہی ہے۔

شہریت کے وعدے بھی کھوکھلے نکلے۔ 2014-15 میں صرف 4,300 مہاجرین کو بھارتی شہریت ملی۔ 2015 تک صرف 36,000 کو طویل مدتی ویزے دیے گئے۔ ہزاروں اب بھی بے یقینی میں زندگی گزار رہے ہیں۔

2021 میں ہی تقریباً 800 ہندو خاندان واپس پاکستان چلے گئے۔ اگرچہ وہاں خطرات موجود ہیں، لیکن بھارت میں مایوسی نے انہیں واپسی پر مجبور کر دیا۔ یہ حقیقت ظاہر کرتی ہے کہ بھارت کی “مہمان نوازی” اکثر علامتی حد تک ہی محدود رہتی ہے۔

سیاست، تحفظ پر حاوی

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ CAA ا یہ ایک سیاسی ہتھکنڈہ ہے، نہ کہ مہاجرین کو تحفظ دینے کا عملی ذریعہ۔ انتخابی جلسوں میں مہاجرین کو دکھا کر قوم پرستی کو ہوا دی جاتی ہے، لیکن انتخابات کے بعد وہی مہاجرین خاموشی، تنہائی اور نظراندازی کا شکار ہو جاتے ہیں۔

یہ ایک منصوبہ بند حکمتِ عملی معلوم ہوتی ہے—مظلوم اقلیتوں کو بلایا جاتا ہے، تحفظ کا وعدہ کیا جاتا ہے، پھر سیاسی فائدہ اُٹھا کر اُنہیں فراموش کر دیا جاتا ہے۔

جیسے جیسے عوام کی توجہ کم ہوتی جاتی ہے، حالات مزید خراب ہوتے جاتے ہیں۔ نئی آمد کا سلسلہ جاری ہے، لیکن وہ بھی ایک لمبی، غیر یقینی اور کاغذی زندگی میں شامل ہو جاتے ہیں۔

آخر کار، جو باقی رہ جاتا ہے وہ صرف مہاجرین کی نظراندازی ہے—ایک انسانی بحران، جو سیاسی تھیٹر میں لپٹا ہوا ہے۔ پناہ کے خواہاں ہزاروں افراد کے لیے، بھارت نہ عزت دیتا ہے نہ کوئی واضح راستہ۔
مہاجرین کی نظراندازی: پناہ کے پیچھے چھپی تلخ حقیقت

بھارت خود کو ہمسایہ ممالک سے مذہبی مظلوم اقلیتوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ کے طور پر پیش کرتا ہے لیکن مہاجرین کی نظراندازی ایک تلخ حقیقت ظاہر کرتی ہے۔ شہریت ترمیمی قانون (CAA) کا مقصد غیر مسلم پناہ گزینوں کو تحفظ دینا تھا خصوصاً پاکستانی ہندوؤں کو لیکن یہ وعدے زیادہ تر ادھورے ہی رہے۔

مئی میں سندھ سے تعلق رکھنے والے پاکستانی ہندو مہاجر سنجے کمار اور ان کی بیوی سپنا کماری کو ممبئی میں قتل کر دیا گیا۔ یہ سانحہ 2020 میں جودھپور میں 11 ہندو مہاجرین کی پراسرار موت کے بعد پیش آیا جس کی تحقیقات آج تک مکمل نہیں ہوئیں۔ ان واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ بھارت میں بھی تحفظ کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔

وعدے بھی کھوکھلے نکلے

شمالی بھارت میں 80,000 سے زائد پاکستانی ہندو مہاجر غیر رسمی کیمپوں میں زندگی گزار رہے ہیں۔ ان میں سے اکثر کو نہ تو شہریت ملی ہے اور نہ ہی شناختی دستاویزات۔ یہ کیمپ صاف پانی، بجلی، صفائی اور طبی سہولیات سے محروم ہیں۔

بچے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ کاغذات نہ ہونے کی وجہ سے وہ اسکولوں میں داخلہ نہیں لے سکتے جس سے ایک پوری نسل تعلیم اور بہتر مستقبل سے محروم ہو رہی ہے۔

شہریت کے وعدے بھی کھوکھلے نکلے 2014-15 میں صرف 4,300 مہاجرین کو بھارتی شہریت ملی۔ 2015 تک صرف 36,000 کو طویل مدتی ویزے دیے گئے۔ ہزاروں اب بھی بے یقینی میں زندگی گزار رہے ہیں۔

2021 میں ہی تقریباً 800 ہندو خاندان واپس پاکستان چلے گئے۔ اگرچہ وہاں خطرات موجود ہیں، لیکن بھارت میں مایوسی نے انہیں واپسی پر مجبور کر دیا۔ یہ حقیقت ظاہر کرتی ہے کہ بھارت کی “مہمان نوازی” اکثر علامتی حد تک ہی محدود رہتی ہے۔

سیاست، تحفظ اور مہاجرین کی نظراندازی پر حاوی

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ CAA ایک سیاسی ہتھکنڈہ ہے نہ کہ مہاجرین کو تحفظ دینے کا عملی ذریعہ۔ انتخابی جلسوں میں مہاجرین کو دکھا کر قوم پرستی کو ہوا دی جاتی ہے لیکن انتخابات کے بعد وہی مہاجرین خاموشی، تنہائی اور نظراندازی کا شکار ہو جاتے ہیں۔

یہ ایک باقاعدہ منصوبہ بندی اورحکمتِ عملی معلوم ہوتی ہے مظلوم اقلیتوں کو بلایا جاتا ہے تحفظ کا وعدہ کیا جاتا ہے پھر سیاسی فائدہ اُٹھا کر اُنہیں فراموش کر دیا جاتا ہے۔

جیسے جیسے عوام کی توجہ کم ہوتی جاتی ہے، حالات مزید خراب ہوتے جاتے ہیں۔ نئی آمد کا سلسلہ جاری ہے لیکن وہ بھی ایک لمبی غیر یقینی اور کاغذی زندگی میں شامل ہو جاتے ہیں۔

آخر کار جو باقی رہ جاتا ہے وہ صرف مہاجرین کی نظراندازی ہے ایک انسانی بحران، جو سیاسی تھیٹر میں لپٹا ہوا ہے۔ پناہ کے خواہاں ہزاروں افراد کے لیے، بھارت نہ عزت دیتا ہے نہ کوئی واضح راستہ۔

https://htnurdu.com/12854/دیکھیئے پنجابی صوبہ تحریک: سِکھ برادری سے کیا گیا وعدہ وفا نہ ہوا

متعلقہ مضامین

آئی سی سی نے طالبان رہنماؤں کے وارنٹ جاری کیے ہیں مگر اسرائیل کی غزہ میں خواتین و بچوں پر بمباری پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے، صارفین کا سوال

July 9, 2025

اجلاس دونوں ممالک کے درمیان استحکام، سلامتی اور ترقی کے مشترکہ ایجنڈے کو آگے بڑھانے کی طرف ایک اہم قدم ہے

July 9, 2025

کراچی جنسی تشدد کیس میں نئی نویلی دلہن شوہر کے ہاتھوں مبینہ تشدد کا شکار، سول اسپتال میں تشویشناک حالت میں زیر علاج

July 9, 2025

انفرادی بینک کھاتوں سے ماہانہ نقد رقم نکالنے کی حد 10 لاکھ افغان کرنسی کر دی گئی ہے

July 9, 2025

رائے دیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *