ٹی ٹی پی اور ایران کے درمیان: پاکستان اب نظرانداز افغانستان کا بوجھ کیوں نہیں اُٹھا سکتا

افغان مہاجرین کی بڑھتی ہوئی تعداد پاکستان اور ایران پر دباؤ ڈال رہی ہے، جس سے سلامتی، معیشت اور انسانی بحران جیسے خطرات جنم لے رہے ہیں۔

1 min read

افغان مہاجرین کی بڑھتی ہوئی تعداد پاکستان اور ایران پر دباؤ ڈال رہی ہے، جس سے سلامتی، معیشت اور انسانی بحران جیسے خطرات جنم لے رہے ہیں۔

افغانستان پر کڑا وقت آیا تو سب سے پہلے اس خطے کے ممالک میں پاکستان متاثر ہوا

جون 2025

جنوبی اور وسطی ایشیا میں سرحدی استحکام ہمیشہ بدامنی کے خطرات سےدوچار رہاہے۔ پاکستانکےتحفظات واضح ہیں۔ کابل اور تہران دونوں میں عدم استحکام، مہاجرین کے بہاؤ اورعسکریت پسندوں کی دخل اندازی فرقہ وارانہ فضا کو بڑھاسکتا ہے۔نتیجتاً پاکستان شدید تر متاثر ہوگا۔جب بھی افغانستان پر کڑا وقت آیا تو سب سے پہلے اس خطے کے ممالک میں پاکستان متاثر ہوا۔

خدشات میں اصافہ

اسرائیلی حملے کے بعد تہران نے غیرقانونی افغانیوں کے خلاف کارروائیوں میں تیزی لائی ہے۔ یو این ایچ سی آر کے مطابق ایران اور پاکستان نے 5.5 ملین سے زائد افغان مہاجرین کو پناہ دیے ہوئے ہیں۔ ایسوسی اینڈ پریس کی رپورٹس کے مطابق روزانہ 5,000 افغان ایران سے فرار ہو رہے ہیں جن میں سے اکثریت کے پاس جانے کے لیے محفوظ ٹھکانہ نہیں ہے۔ جیسے جیسے ملک بدریوں میں اضافہ ہو رہا ہے ویسے ہی پاکستان پر دباؤ بڑھ رہا ہے موجودہ حالات میں پاکستان کا متحمل ہونا نہایت ہی مشکل ہے۔

یو این 2025


افغانستان ہیومیٹیرین ریسپانس پلان کا صرف اٹھارہ فیصد فنڈنگ حاصل ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ صحت کی سہولت، رہائش اور خوراک تک رسائی محدود تر ہوتی جا رہی ہے۔ مہاجرین کی اکثریت پسماندہ علاقوں میں آباد ہوتی ہے جہاں غربت و افلاس چارسو راج کررہی ہوتی ہے۔

سیکورٹی ماہرین خبردار کررہے ہیں کہ یہ صورت حال دہشت گرد نیٹ ورکس کو مزید مواقع دے سکتی ہے۔ کاؤنٹر ٹیررازم گروپ نے حال ہی میں کہا ہے کہ ٹی ٹی پی اور داعش جیسے گروہ “بے گھر ہونے والے افراد کا” فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ حالات بدامنی اور دہشگردوں کو دوبارہ موقع فراہم کررہے ہیں۔

پاکستان پہلے ہی اس کے اثرات دیکھ چکا ہے۔ اپریل میں پاک فوج نے شمالی وزیرستان میں 54 ٹی ٹی پی عسکریت پسندوں کے ہلاک ہونے کی اطلاع دی۔ آئی ایس پی آر کے بیان کےمطابق یہ عسکریت پسند افغانستان سے دراندازی کرکے آئے تھے اور نیٹو کے معیار کے ہتھیاروں سے لیس تھے۔ وزیر داخلہ محسن نقوی نے مزید کہا کہ غیر ملکی انٹیلی جنس خاص طور پر ہندوستانی پراکسیز ڈیورنڈ لائن کے پار ٹی ٹی پی کی کارروائیوں کو موقع دےرہی ہے۔

یہ خدشات و تشویش کوئی جدید نہیں ہے۔ بلکہ پاکستانی عہدیداروں نے بار بار نیٹو کے استعمال شدہ ہتھیاروں کی طرف اشارہ کیا ہے جو اب عسکریت پسند گروہوں کے ہاتھوں میں نظر آرہے ہیں۔ افغانستان حکام کی ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں کو ختم کرنے میں ناکامی اس بات کی عکاسی کرتی ہیکہ دہشتگرد گروہوں کو سرحد پار حملوں کی منصوبہ بندی کرنے کی اجازت دیتی ہے۔ دریں اثنا ہندوستان کی جانب سے بھی عسکریت پسندوں کی حمایت پاکستان کی سلامتی کےلیےخطرہ ہے۔

دہائیوں پرمحیط جنگ

افغانستان بھی شدید مشکلات کا شکار ہے۔ دہائیوں کی جنگ نے بنیادی طور پر افغان سرزمین کو کمزور کر دیا ہے۔ لاکھوں افراد بے گھر ہیں۔ جبکہ طالبان آپس کے اختلافات سے بھی دوچار ہیں۔

اگر افغانستان دوبارہ زوال پذیر ہوا تو خطہ کو طویل عدم استحکام کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ تہران میں معاشی پابندیوں اور سیاسی کریک ڈاؤن کے نتیجے میں بدامنی سرحد پار پھیل سکتی ہے۔ پہلے ہی فرقہ وارانہ تناؤ بڑھ رہا ہے۔ شیعہ برادری کاکہنا ہیکہ ہمیں خطرہ ہےکہیں ہمیں بطور قربانی کے استعمالنہ کیاجائے۔جو پاکستان کے حساس ترین علاقوں میں ردعمل کے طور لر اثر انداز سکتا ہے۔

افغانستان سے گزرنے والے تجارتی راستے وسطی ایشیا کو پاکستان اور دیگر ممالک سے جوڑتے ہیں۔ انکےمتاثرہونےکامطلب کا مطلب مہنگائی، خوراک کی عدم دستیابی اور اسمگلنگ میں اضافہ۔ پاکستان کی معیشت اس صورتحال کو برداشت کرنے سے قاصر ہے۔

باوجود انتشار کےپاکستان اور ایران دونوں کو ایک ہی طرح کے خطرات کا سامنا ہے۔ غیر مستحکم افغانستان کسی کے لیے فائدہ مند نہیں ہے۔ سرحدی علاقے دہشت گردی، اسمگلنگ اور بدامنی کے گڑھ بن جائیں گے۔ اور مضبوط تعاون کے بغیرمعمولی لغزشیں بھی براہ راست انتشار میں بدل سکتی ہیں۔

پاکستان کے اقدامات؟

حالات اس بات کے مقتضی ہیں کہ پاکستان کو فیصلہ کُن اقدامات کرنے چاہئیں۔ سب سے پہلے افغان حکام کے ساتھ سرحدی نگرانی اور انٹیلی جنس کو بڑھانا، مشترکہ گشت دراندازی اور غلط فہمیوں کو روکنے میں مدد کر سکتی ہیں۔

دوسرا پاکستان کو بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر افغانستان کے اندر بفرزونز قائم کرنےچاہیے۔ یہ کیمپ افغان مہاجرین کومحفوظ رہائش گاہ کی فراہمی کو یقینی بناسکتے ہیں۔مزید یہ کہ مہاجرین کے درمیان عسکریت پسندی کو جڑ نہ پکڑنے دیا جائے۔

تیسرا انسانی ہمدردی پر مبنی سفارت کاری ضروری ہے۔ اسلام آباد کو افغانستان کے استحکام کے لیے تعلیم، صحت اور خوراک کے شعبوں میں عطیات دینے والوں کی توجہ حاصل کرنی چاہیے۔

چوتھا پاکستان کو براہ راست تہران سے رابطہ کرنا چاہیے۔ تشویش ناک اوامرمثلا مہاجرین کا انتظام، دہشت گردی کے خلاف جنگ اور تجارت میں باہمی اعتماد کی ضرورت ہے۔

آخر میں اسلام آباد کو اپنا معاملہ عالمی سطح پر اٹھانا چاہیے۔ اگر ہندوستان عسکریت پسند گروہوں کو ہتھیار فراہم کر رہا ہے یا افغان سرزمین کا استحصال کر رہا ہے تو یو این یا ایس سی او جیسے فورمز پر ثبوت پیش کیے جانے چاہئیں۔

بحران زدہ خطہ

دو بحران ایک مشرق وسطیٰ میں اور دوسرا جنوبی ایشیا میں ایک دوسرے سے ٹکرا رہے ہیں۔ نتیجہ مہاجرین کی لہر، دہشت گرد حملوں میں اضافہ اور وسیع پیمانے پر عدم استحکام کی صورت میں ظاہر ہوسکتا ہے۔ افغانستان دوبارہ زوال کا متحمل نہیں ہو سکتا لہذا بروقت و سنجیدہ اقدامات ناگزیر ہوتے جارہے ہیں

دیکھیں: علاقائی تعاون سے بحران کو روکا جا سکتا ہ

متعلقہ مضامین

اجلاس دونوں ممالک کے درمیان استحکام، سلامتی اور ترقی کے مشترکہ ایجنڈے کو آگے بڑھانے کی طرف ایک اہم قدم ہے

July 9, 2025

کراچی جنسی تشدد کیس میں نئی نویلی دلہن شوہر کے ہاتھوں مبینہ تشدد کا شکار، سول اسپتال میں تشویشناک حالت میں زیر علاج

July 9, 2025

انفرادی بینک کھاتوں سے ماہانہ نقد رقم نکالنے کی حد 10 لاکھ افغان کرنسی کر دی گئی ہے

July 9, 2025

عمران خان کے بیٹے اگست میں پی ٹی آئی کی احتجاجی تحریک میں شمولیت کے ساتھ سیاست میں باقاعدہ انٹر ہوں گے۔

July 9, 2025

رائے دیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *