اسلام آباد 24 جون 2025: پاکستان نے ایران-اسرائیل کشیدگی کے دوران ایک سنجیدہ سفارتکار کا مظاہرہ کرکے سفارتی پختگی کاثبوت دیا۔ ۔
سفارتی حکمت عملی
اس کشیدگی کے دوران پاکستان نے عوامی سطح پر سنجیدہ پیغامات کے ساتھ ساتھ خفیہ سفارتی کوششیں بھی جاری رکھیں۔ اسرائیلی جارحیت کی مذمّت کرنے کے ساتھ ساتھ ایران سے اظہارِ یکجہتی بھی کی۔ لیکن اس دوران فریقین سے تحمل و بُردباری اور مکالمے کی اپیل کی۔
پاکستان کا حالیہ سنجیدہ رویہ اس گہرے تدبّر وفکر کا ثبوت ہے کہ علاقائی استحکام صرف پڑوسی ممالک کےلیے نہیں بلکہ اپنے قومی مفادات کے لیے بھی ضروری ہے۔
حکمت عملی آراستہ اقدامات
پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت نے علاقائی اور عالمی رہنماؤں کے ساتھ اپنی ذمہ دمہ داری احسن طریقے ادا کی۔ پاکستان کےوزیراعظم شہباز شریف نے ایرانی صدر مسعود پیزشکین کے ساتھ اہم گفتگو کی۔ جبکہ سعودی عرب اور قطر کے سفیروں سے بھی ملاقاتوں میں کشیدگی کے بجائے مکالمےپر توجہ مرکوز کروائی۔
مذکورہ کشیدگی کےدوران آرمی چیف جنرل عاصم منیر نےامریکی صدر ٹرمپ سے ملاقات کی جسے ماہرین نے واضح و سنجیدہ حکمت عملی قرار دیا۔ ٹرمپ کا یہ بیان کہ “وہ ایران کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں” سے پاکستان کے اثر و رسوخ اور حکمتِ علمی کا اندازہ ہوتا ہے۔
یہ روابط صدر ٹرمپ کے سابقہ بیان پر زبردست اثرانداز ہوئے۔
پاکستان کی خاموش سفارتکاری نے کشیدگی کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
اقوام متحدہ اور پاکستان
پاکستان نے چین اور روس کے ساتھ مل کر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایک قرارداد پیش کی جس میں جلد اور غیر مشروط جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا۔ یہ اقدام پاکستان کی سفارتکاری سعی کو واضح کرتا ہے۔
سنجیدہ رویّہ
اہم قابلِ ذکر اقدام پاکستان کی جانب سے صدر ٹرمپ کو نوبل امن انعام کے لیے نامزد کرنا تھا۔ اگرچہ یہ متنازعہ تھا لیکن یہ بطورِ مصلحت کے تھا۔ جس نے ٹرمپ کو ایک امن سفیر کے طور پر کام کرنے کا موقع دی
دیکھیئے: ایران کشیدگی میں کمی:قطرمیں امریکی بیس پرحملہ کے بعدجنگ بندی کا اعلان