اسلام آباد – 22 جون 2025: پاکستان نے ایران کے جوہری مراکز پر امریکی فضائی حملوں کی سخت مذمت کی ہے، انہیں خطے کے استحکام کے لیے سنگین خطرہ قرار دیا۔ یہ ردعمل اس وقت سامنے آیا جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فورڈو، نتنز اور اصفہان پر “کامیاب” حملوں کا اعلان کیا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ امریکی جنگی طیاروں نے اہم انفراسٹرکچر تباہ کر دیا اور ایرانی فضائی حدود سے محفوظ طریقے سے نکل گئے۔
وزارت خارجہ پاکستان نے ایک سرکاری بیان میں کہا، “ہم ایران کی جوہری تنصیبات پر امریکی حملوں کی مذمت کرتے ہیں۔” وزارت نے خبردار کیا کہ یہ حملے “خطرناک تصادم” ہیں اور خطے کو مزید عدم استحکام کی طرف دھکیل سکتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرس نے بھی تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ امریکی اقدامات امن اور سلامتی کے لیے براہ راست خطرہ ہیں اور تمام فریقوں سے مکالمے کی طرف لوٹنے کی اپیل کی۔
اعلیٰ داؤ پر لگی ہوئی صورتحال اور سفارتی اثرات
مشرق وسطیٰ کی صورتحال 13 جون سے خراب ہوئی، جب اسرائیل نے ایران کے خلاف جارحیت کا آغاز کیا۔ ایران نے اسرائیلی شہروں پر میزائل اور ڈرون حملوں کا جواب دیا، جس میں 20 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ اسرائیل نے زیادہ طاقت کے ساتھ جوابی کارروائی کرتے ہوئے ایران بھر میں جوہری اور فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا۔
ایرانی جوہری توانائی کی تنظیم نے امریکی حملوں کو “وحشیانہ” اور بین الاقوامی قانون، خاص طور پر جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیا۔ انہوں نے بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی پر خاموشی اور سازش کا الزام لگایا۔ ایران نے اپنی تنصیبات کو دوبارہ تعمیر کرنے کا عہد کیا اور اپنے “انقلابی سائنسدانوں” کی لچک کو سراہا۔
دریں اثنا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور سوئٹزرلینڈ سمیت کئی ممالک نے تہران میں اپنے سفارتخانے بند کر دیے ہیں۔ انہوں نے سلامتی کے خدشات کو بنیادی وجہ بتاتے ہوئے سفارتی عملے کو نکالنا شروع کر دیا۔
صدر ٹرمپ نے کہا کہ یہ کارروائی ایک “فوجی کامیابی” تھی اور ایران کو مستقبل کے حملوں سے خبردار کیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا، “اگر امن جلد نہیں آتا، تو ہم مزید اہداف کو نشانہ بنائیں گے— درستگی اور مہارت کے ساتھ۔” ٹرمپ نے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کا بھی قریبی تعاون پر شکریہ ادا کیا، کہتے ہوئے کہ دونوں ممالک “ایک ٹیم” کی طرح کام کر رہے تھے۔
تحمل اور علاقائی استحکام کی اپیل
پاکستان کے ساتھ ساتھ، سعودی عرب نے بھی امریکی حملوں کی مذمت کی، انہیں ایران کی خودمختاری کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے فوری تحمل اور سفارتی حل کی اپیل کی۔ دریں اثنا، برطانوی وزیر اعظم کیر اسٹارمر نے مختلف موقف اختیار کیا، حملوں کی مکمل حمایت کرتے ہوئے ایران کے جوہری عزائم کو بین الاقوامی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ قرار دیا۔ انہوں نے تہران پر مذاکرات کی طرف لوٹنے کا بھی دباؤ ڈالا۔
اس کے برعکس، نیوزی لینڈ کے وزیر خارجہ ونسٹر پیٹر نے سفارتکاری پر زور دیا، مزید تصادم کے خلاف خبردار کیا اور خطے میں نیوزی لینڈ کے شہریوں کی مدد کے لیے حکومتی عملے اور سی-130J ہرکیولیز طیارے کی تعیناتی کا اعلان کیا۔ مزید برآں، کویت اور قطر نے ایران پر حملوں کے لیے امریکہ کو اپنی فضائی حدود یا اڈوں کے استعمال کی اجازت دینے سے انکار کر دیا، جو عرب اتحاد کے نایاب لمحے کی علامت ہے۔
روئٹرز کے مطابق، دوحہ میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کے دوران، خلیجی ممالک کے نمائندوں— بشمول قطر، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور کویت— نے اپنی غیرجانبداری کا اعلان کیا اور ایران کے خلاف امریکی فوجی کارروائیوں میں کسی کردار سے انکار کر دیا۔ برطانوی وزیر رینالڈز نے تصدیق کی کہ امریکہ نے ایران پر حملوں سے پہلے برطانیہ کو مطلع کیا تھا لیکن برطانیہ کی شمولیت یا ڈیگو گارسیا کے استعمال کی درخواست نہیں کی تھی۔ تاہم، وزیر اعظم اسٹارمر نے کارروائی کی حمایت کی، زور دے کر کہا کہ ایران کو کبھی بھی جوہری ہتھیار نہیں بنانے چاہئیں۔
پاکستان کا واضح پیغام خطے کے استحکام کے لیے اس کی عزم اور ایک تنازعہ خیز زون میں معقول آواز کے طور پر اس کے بڑھتے ہوئے کردار کو ظاہر کرتا ہے