تاریخ23جون2025
اسلام آباد:21 اور 22 جون کی درمیانی شب ایران کی جوہری تنصیبات پرامریکی حملہ میں بھارتی فضائی حدود استعمال کی گئی۔امریکی فضائیہ کے بی ٹو بمبار طیاروں نے گوام سے اُڑان بھری بحیرہ انڈمان وسطی بھارت اور عرب سمندر کے راستے ایران کی فضائی حدود میں داخل ہوکراپنے ہدف کو نشانہ بنایا۔
دفترِ خارجہ نے ان تمام افواہوں کی تردید کردی جن میں یہ دعویٰ کیاگیاتھا کہ پاکستان نے امریکی حملے میں کوئی مدد فراہم کی۔پاکستانی حکام کے مطابق جغرافیائی لحاظ سے امریکہ کے پاس دوسرے کئی مختصر و فضائی راستے موجود تھے۔
بے بنیاد معلومات کی تردید
بی ٹو طیارے دنیا کی جدید ترین اسٹیلتھ ٹیکنالوجی سےآراستہ ہیں جوکہ ریڈار پر نظر نہیں آتے انکی اڑان کا سراغ لگانا ناممکن ہوتاہے۔ اسی وجہ وجہ سے سوشل میڈیا پر مختلف قیاس آرائیاں بے بنیاد ہیں۔
دفترِ خارجہ نے امریکی حملہ کی مذمت کرتے کوئے اسے اشتعال انگیز کاروائی قرار دیا۔ایرانی شہریوں کی ہلاکت پر گہرے افسوس کا اظہارکیا۔ماضی اس پر چشم دید گواہ ہیکہ پاکستان نے ہمیشہ امریکی حملوں کی مخالفت کی ہے اور ایران کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کی ہے۔
پاکستان کی سفارتی
پاکستان کے وزیرِ خارجہ جنرل ریٹائرڈ عاصم منیر نےکشیدگی کو روکنے کےلیے بھرپور سفارتی کوششیں کیں۔انہوں نے امریکی حکام سے رابطہ کرکے اس بات پر زور دیاکہ جنگی کاروائیوں سے گریز کیا جائے۔ان تمام تر سعی کے نتائج اس وقت ظاہر ہوئے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حملے کے ساتھ ہی امن کی اپیل بھی کی۔قابلِ غور بات یہ ہیکہ حملے سے فقط 24 گھنٹے قبل پاکستان نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو پاک۔بھارت کشیدگی میں اپنا کردار ادا کرنے پر نوبل انعام کےکیے نامزد کیا۔جوکہ ایک سفارتی دباؤ کا مؤثر ترین طریقہ ثابت ہوا۔
پاکستان کا صاف انکار
پاکستان نے امریکی حملے کی شدید مذمت کی اور کسی بھی جنگ کا حصہ بننے سے صاف انکار کیا اور مزید کہا کہ پاکستان کی فضائی،بحری،زمینی حدود امریکی حملے میں قطعاً استعمال نہیں ہوئیں۔اور ساتھ ساتھ اسرائیلی جارحیت کے خلاف ببانگِ دہل صدا بلند کی اور ساتھ ہی ایران سے مکمل اظہارِ یکجہتی کا اعلان کیا۔
پاکستان اپنی سالمیت و خودمختاری کے تحفظ کے لیے ہرحدتک جائےگا۔اور تمام تر مسائل کا حل سفارتکاری کے ذریعے چاہتا ہے ۔