امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے گوگل، مائیکروسافٹ اور میٹا جیسی امریک کمپنیوں کو ہدایت جاری کی گئی ہے کہ بھارتی شہریوں کی مزید بھرتیاں نہ کی جائیں۔ اس اعلان نے ایک بڑی بحث کو جنم دیا ہے۔ یہ بیانات نہ صرف بھارت کے ٹیکنالوجی عزائم کو چیلنج کرتے ہیں بلکہ بھارےث کے متنازعہ ویزا پروگرام کو بھی دوبارہ کڑی تنقید کی زد میں لے آئے ہیں۔
ٹرمپ کی واضح ہدایت” بھارت سے ملازمین کی بھرتی بند کریں” یہ اعلان امریکہ-بھارت تعلقات کی حقیقت کو واضح کرتا ہے جو دونوں ممالک کے درمیان معاشی مفادات میں بڑھتی ہوئی دوریوں کو ظاہر کرتا ہے۔
بھارت جو اپنے آپ کو ٹیکنالوجی میں ماہر سمجھتا ہے، لیکن اب ایک فیصلہ کُن حقیقت کا سامنا کر رہا ہے کیونکہ امریکی صدر ان معاملات میں براہِ راست میدان میں اتر آئے ہیں
یہ اقدام بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی ان پالیسیوں پر بھی دباؤ ڈالتا ہے جو امریکہ سمیت بیرونی شراکت داری پر انحصار کرتی رہی ہیں مگر بدلتے عالمی رجحانات کے تناظر میں بھارت کی حکمتِ عملی کو کامیاب بنانے میں ناکام نظر آتی ہیں۔
ٹرمپ کا مزید کہنا تھا انڈیا کی ٹیکنالوجی کمپنیاں امریکی سائے میں پروان چڑھیں مگر اپنی فیکٹریاں چین میں لگائیں اور ملازمین بھارت سے بھرتی کیے. صدر ٹرمپ کے دور میں یہ سب ختم ہوگا۔
حالیہ صورتحال بھارت کی عالمی ساکھ خاص طور پر اس کی ٹیکنالوجی کو تنقیدی نظر سے دیکھنے کا باعث بن سکتی ہے۔
ماہرین کے مطابق ٹرمپ کا حالیہ ویزا پالیسی کے متعلق مؤقف غیر ملکی لوگوں کی نوکریوں کو روکنا ہے کیونکہ اس پالیسی کا فائدک اتھاتے ہوئے غیر ملکی ورکرز امریکہ آتے ہیں اور مقامی لوگوں کی بھرتی کے نظام کو متاثر کرتے ہیں۔
طویل عرصے سے اس ویزا اسکیم پر تنقید ہوتی آئی ہے کہ اس پالیسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت سے ایسے انجینیئرز آتے ہیں جن کی ڈگریوں پر سوالیہ نشان ہوتا ہے، اور ان کی قابلیت کے معیار پر سوال اٹھتا ہے۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ انجینیئرز جن میں سے کچھ واقعی ہنر مند ہوتے ہیں کمپنیوں میں داخل ہو کر مقامی امریکی ورکرز کی جگہ لیتے ہیں اور مزید بھارتی ویزا ہولڈرز کو بھرتی کرنے کی راہ ہموار کرتے ہیں۔
دیکھیں: عالمی روابط کی مضبوطی کیلئے پاکستان کا اوپن ڈور ویزا پالیسی شروع کرنے کا اعلان
 
								 
								 
								 
								 
								 
								 
								 
															