پاکستان۔ بنگلہ دیش تعلقات کی جانب نظر دوڑائی جاٗے تو آج سے ٹھیک ایک سال قبل پانچ اگست 2024 کو طویل عوامی جدوجہد کے بعد شیخ حسینہ واجد کا تخت اُلٹا گیا تھا۔ یاد رہے شیخ حسینہ واجد کے دور اقتدار میں اور اس سے قبل بھی پاکستان۔ بنگلہ دیش ایک دوسرے کے حریف ہی چلے آرہے تھے، پاکستان سے بنگلہ دیش جب جدا ہوا تو روزِ اول تا 2024 بنگلہ دیش پاکستان سے روابط استوار کرنے کے بجائے بھارت کا حلیف رہا، صرف حکومتی سطح اور اقتدارِ اعلی تک ہی نہیں بلکہ عوامی جلسوں میں بھی پاکستان مخالف نعرے لگائے جاتے رہے ہیں جو پاکستان دشمنی پر مہر ثابت کرتی تھی اوراگر کوئی بنگلہ دیشی پاکستان کے حق میں آواز بلند کرتا تواسے پسِ زنداں بھیج دیا جاتا تھا۔
عبوری حکومت سے قبل بنگلہ دیش پر جب تک شیخ حسینہ واجد براجمان تھی تب تک پاکستانیوں کے لیے بنگلہ دیش کے ویزے پر بھی پابندی تھی۔ اور ڈھاکہ پاکستان کے بجائے انڈیا کا اتحادی بن کر خطے میں اپنا کردار ادا کررہا تھا۔
لیکن شیخ حسینہ واجد کے جانے کے بعد سے ماہرین کا کہنا ہے 1971 سے 2024 تک دونوں ممالک کے درمیان تعلق تو تھا ہی نہیں لیکن گویا اس سال پاکستان۔ بنگلہ دیش کے درمیان تعلقات کی بنیاد رکھی جاری رہی ہے۔ دونوں ممالک کے مابین روابط میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ اسکا اندازہ یہاں سے لگایئے کہ بنگلہ دیش کی نامور شخصیات پاکستان کا دورہ کر چکی ہیں اور پاکستان کے وزیرِ داخلہ محسن نقوی بھی ڈھاکہ کا دورہ کر چکے ہیں۔
دونوں ممالک کے عوام میں گزشتہ ایک سال میں جو بہتری دیکھنے کو ملی ہے، اس سے اندازہ ہورہا ہیکہ دونوں ممالک کے درمیان مزید قربتیں بڑھنے کی امید ہیں۔ ذرائع کے مطابق دونوں ممالک کے حکمران اور عسکری قیادت بھی باہم رابطے میں ہیں۔
چند ماہ قبل اپریل میں بنگلہ دیش کے وائس چانسلرز نے بھی پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ اس دورے میں بنگلہ دیش کے مختلف یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز شامل تھے، جن میں یونیورسٹی آف ڈھاکہ سے ڈاکٹر محمد کامل، جے کے یونیورسٹی سے ڈاکٹر محی الدین احمد ،بنگلہ دیش یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی سے ڈاکٹر سمیع الحق ، یونیورسٹی آف راجشاہی سے ڈاکٹر عظیم الحق اور یونیورسٹی آف چٹگاؤں سے ڈاکٹر فاطمہ ناز شامل تھیں۔
دیکھیں: دنیا بھر میں مقیم کشمیری آج یوم استحصال کشمیر منا رہے ہیں