امارتِ اسلامیہ افغانستان کے سابق نائب صدر امراللہ صالح نے اقوام متحدہ کی جانب سے عائد کردہ پابندی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا وزیر خارجہ امیر خان متقی کا حالیہ دورہ پاکستان نہ کرنا جہاں اس فیصلے کو ایک مثبت قدم سمجھتے ہیں وہیں اس فیصلے نے سفارت کاری اور امن کی جدوجہد میں اقوام متحدہ کی پابندیوں ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔
سابق نائب صدر کا کہنا تھا اگرچہ اقوام متحدہ کے فیصلوں کی پاسداری کرنا ضروری ہے لیکن دوسری جانب یہ بھی معنی رکھتا ہیکہ وزیر خارجہ امیر خان متقی کو ماضی میں بارہا مرتبہ اقوام متحدہ کی جانب سے پاکستان سمیت دیگر ممالک کی جانب سفر کی اجازت دی گئی ہے۔
حالیہ دورے کی اجازت نہ دینا اس تناظر میں بھی دیکھا جاسکتا ہے پاک۔ افغان تعلقات بڑی تیزی سے مثبت جانب رواں تھے۔ ان تمام تر پیشِ رفت کو غیرمؤثر کرنے کے طور پر بھی دیکھا جاسکتا ہے
اقوام متحدہ کے رکن ممالک بالخصوص امریکہ کو خطے میں امن و استحکام کے لیے کیے گٗے ہر اقدام کو اہمیت دیتے ہوئے اپنا مثبت کردار ادا کرنا چاہیے ۔ خصوصاً جب خطے کے حالات ایک نازک دور سے گزر رہے ہوں۔
اس طرز کی پابندیاں ممالک کے مابین میں مثبت پیشِ رفت کے بجائے باہم کشیدگی کو ہی جنم دے سکتے ہیں۔ امن کے قیام کے لیے خطے کے تمام ممالک سنجیدگی سے سوچنا ہوگا اور اقوامِ متحدہ کے ایسے فیصلوں پر کوٗی واضح مؤقف اپنانا ہوگا۔
نائب صدر کا کہنا تھا عالمی برادری کو یہ یقینی بنانا ہوگا کہ پابندیوں کے فیصلے خطےکے امن و استحکام اور سفارتی پیشرفت کو نقصان نہ پہنچائیں، بلکہ اقوام متحدہ کی پالیسی مثبت تبدیلی اور خطے کے امن واستحکام کےاستعمال ہو۔
افغان ادارے کی رپورٹ کہ حالیہ دورے کی اجازت نہ ملنا تکنیکی وجوہات کی وجہ سے ہوا ہے نہ کہ پالیسی میں تبدیلی کی وجہ سے، اس قسم کے بیانات صورتحال کو مزید پیچیدہ بناتے ہے۔
دیکھیں: تحریک طالبان پاکستان کے خاندانوں کی غزنی اور زابل منتقلی