23 مارچ 1940 — آزادی سے کیا مراد ہے؟ کیا آزادی صرف نوآبادیاتی جھنڈے کو اتارنے سے مل جاتی ہے، یا پھر بھی غلامی کسی اور شکل میں جاری رہتی ہے — معاشی کنٹرول، ثقافتی مٹاؤ اور بیانیے کی تبدیلی کے ذریعے؟ جب پاکستان میں 23 مارچ کو قراردادِ لاہور — جسے بعد میں قراردادِ پاکستان کا نام دیا گیا — کا نام لیا جاتا ہے تو یہ ایک یاد دہانی ہے کہ خودمختاری کی جدوجہد 1947 میں ختم نہیں ہوئی۔ بلکہ اس کی صرف شکل بدلی ہے۔
اس تاریخی دن 1940 میں مسلم لیگ نے صراحت کے ساتھ وہ بات کہی جو صدیوں سے ایک غیر اعلان شدہ حقیقت تھی: جنوبی ایشیا کے مسلمان صرف ایک مذہبی گروہ نہیں تھے بلکہ ایک الگ تہذیب تھے جس کے اپنے سیاسی، معاشی اور سماجی نظام تھے۔
قراردادِ لاہور کی بنیاد کوئی نیا نظریہ نہیں تھا؛ بلکہ یہ برصغیر میں اسلام کی تاریخ میں گہری اہمیت کی حامل ہے جو المہلب بن ابی صفرہ کی ابتدائی مہمات سے لے کر تجارت، علم اور حکمرانی کے ذریعے پھیلی۔ یہ دہلی سلطنت اور مغلیہ سلطنت کے تحت پروان چڑھی جس نے ایک الگ سماجی و سیاسی شناخت کو جنم دیا جو خطے کی دیگر برادریوں سے ممتاز تھی۔ قرارداد، بہت سے معنوں میں، اس شناخت کا اعلان تھا — ایک نظریاتی موقف جو نوآبادیاتی اور اکثریتی طاقتوں کے خلاف تھا جو اسے مٹانا یا اپنے اندر ضم کرنا چاہتی تھیں۔ لیکن اگرچہ برطانوی راج ختم ہو گیا، نوآبادیات کا خاتمہ نہ ہو سکا۔ یہ تبدیل ہو کر ان نظاموں میں سرایت کر گئی جو آج بھی جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے نظام کو تشکیل دے رہے ہیں۔
23 مارچ 1940: نوآبادیاتی حکومت سے نوآبادیاتی اثر تک
روایتی نوآبادیات براہ راست حکومت، فوجی موجودگی اور قانونی کنٹرول پر انحصار کرتی تھی، لیکن آزادی کے بعد کے دور میں یہ زیادہ پوشیدہ شکل اختیار کر گئی۔
ادارے جیسے کہ دولت مشترکہ (Commonwealth)، برٹش کونسل، اور مغربی مالیاتی تنظیمیں نوآبادیاتی اثرات کی باقیات کو برقرار رکھتی ہیں، تاکہ سابقہ نوآبادیات پرانی طاقت کے ڈھانچے سے جڑی رہیں۔ مثال کے طور پر دولت مشترکہ خود کو مساوی قوموں کا ایک اتحاد بتاتی ہے، لیکن حقیقت میں یہ برطانوی معاشی اور جیوپولیٹیکل مفادات کو برقرار رکھنے کا ایک ذریعہ ہے۔ برٹش کونسل پاکستان اور دیگر سابقہ نوآبادیات میں انگریزی زبان کی تعلیم کو فنڈ دیتی ہے، جو لسانی اور ثقافتی بالادستی کو تقویت دیتی ہے اور نوجوان اشرافیہ کی خواہشات کو مغربی اقدار کی طرف موڑتی ہے۔ یہ کوئی بے ضرر تعاون نہیں، بلکہ ایک ایسا طریقہ ہے جس سے زمینوں کے آزاد ہوتے ہوئَ بھی ذہنوں کو غلام بنایا جاتا ہے۔
معاشی انحصار اس کنٹرول کو مزید گہرا کرتا ہے۔ عالمی جنوب کی طرح پاکستان بھِی عالمی مالیاتی فنڈ (IMF) اور ورلڈ بینک کے رحم و کرم پر ہے، جن کے قرضوں کی شرائط ایسی مالی پالیسیاں مسلط کرتی ہیں جن کی قیمت قومی ترجیحات ہوتی ہیں۔ پاکستان پر IMF کے حالیہ سخت اقدامات، جن کی وجہ سے مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے، اور صحت و تعلیم پر عوامی اخراجات کم ہو رہے ہیں، نوآبادیاتی دور کی معاشی لوٹ کی یاد دلاتے ہیں۔ اصل میں دولت اب بھی باہر کی طرف بہہ رہی ہے، جبکہ انحصار بڑھ رہا ہے۔
شناخت کو نشانہ بنانا: پہلے اور اب
23 مارچ 1940 صرف سیاسی علیحدگی کا مطالبہ نہیں تھا؛ یہ شناخت کے تحفظ کا مطالبہ تھا۔ پاکستان کی نظریاتی بنیاد اس احساس پر تھی کہ جنوبی ایشیا میں مسلم شناخت الگ ہے اور اسے پنپنے کے لیے سیاسی جگہ چاہیے۔
آج، شناخت نوآبادیاتی اثرات کا بنیادی ہدف ہے، جسے میڈیا، ثقافت، تعلیم اور حکمرانی کے ڈھانچوں کے ذریعے نشانہ بنایا جاتا ہے جو احساس کمتری یا انحصار کو بڑھاتے ہیں۔
عالمی میڈیا کے بیانیے مسلسل جنوبی ایشیائی مسلمانوں کو یا تو انتہا پسند یا شکار کے طور پر پیش کرتے ہیں، ان کی شناخت کو یا تو ایک سلامتی کے خطرے یا ایک انسانی بحران تک محدود کر دیتے ہیں۔ ہالی وڈ اور بالی وڈ دونوں اس میں حصہ ڈالتے ہیں، جہاں مسلمانوں کو دہشت گرد، پسماندہ یا ایک محتاج مظلوم گروہ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جسے مغرب ہی اس ظلم سے نجات دلا سلکتا ہو۔ یہاں تک کہ جنوبی ایشیا کے اندر، میڈیا اکثر فرقہ وارانہ تقسیم کو ہوا دیتا ہے، جس سے پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور دیگر جگہوں پر مسلمانوں کے درمیان اتحاد کمزور ہوتا ہے۔
ثقافتی نوآبادیات بھی اتنی ہی گہری ہے۔ مغربی صارفیت کی ثقافت کے پھیلاؤ نے مقامی روایات کو بتدریج مٹانا شروع کر دیا ہے۔ روایتی لباس کی جگہ مغربی فیشن لے رہا ہے، مقامی کھانے کو “ایتھنک” کہہ کر پیش کیا جاتا ہے جبکہ مغربی فاسٹ فوڈ شہری مراکز پر حاوی ہے، اور یہاں تک کہ شادی کی تقریبات میں بھی ہالی وڈ اور بالی وڈ کے اثرات شامل ہو چکے ہیں۔
اس کا گہرا اثر زبان پر بھی پڑا ہیے۔ پاکستان کے ایلیٹ اسکولوں میں انگریزی اب بھی بنیادی ذریعہ تعلیم ہے، جس سے حکمران طبقہ عوام سے کٹا رہتا ہے۔ نتیجہ؟ ایک ایسا ملک جہاں انگریزی سے آشنائی کا دوسرا نام سماج میں اعلی مرتبہ ہے، جہاں نوجوان شیکسپیئر پر تو بحث کر سکتے ہیں لیکن اقبال پر نہیں، اور جہاں پالیسی سازی اکثر بیرون ملک سے تعلیم یافتہ اشرافیہ کے ہاتھ میں ہوتی ہے جو قومی مفادات سے زیادہ عالمی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں۔
تعلیم شناخت کو ڈھالنے کا ایک موثر ہتھیار ہے، اور یہاں بھی نوآبادیاتی ورثہ موجود ہے۔ پاکستانی طلباء کو اکثر نوآبادیاتی عینک سے تاریخ پڑھائی جاتی ہے، جہاں برطانوی “ترقی” کو نوآبادیاتی ظلم سے زیادہ نمایاں کیا جاتا ہے۔ جبکہ مقامی علم مغربی نظریات کے زیر اثر اداروں میں جگہ حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کرتا ہے۔ یہاں تک کہ مذہبی مباحث میں بھی، بیرونی فنڈ یافتہ تنظیمیں ایسی تفسیریں پھیلاتی ہیں جو بیرونی جیوپولیٹیکل ایجنڈے کے مطابق ہوتی ہیں نہ کہ مقامی روایات کے۔
جیوپولیٹکس اور جدید جدوجہد
پاکستان کی پیدائش نوآبادیات اور اکثریتی قوم پرستی دونوں کے خلاف ایک ردعمل تھی، لیکن آج یہ ایک ایسی عالمی ترتیب کا سامنا کر رہا ہے جو اب بھی سابق نوآبادیاتی طاقتوں کو مفاد پہنچاتی ہے۔
ملک کو ایسے تنازعات میں گھسیٹا گیا ہے جو اس کے اپنے بنائے ہوئے نہیں تھے، جیسے سرد جنگ سے لے کر دہشت گردی کی جنگ تک، جہاں اہم فیصلے عموما قومی مفاد میں نہیں بلکہ اکثر بیرونی دباؤ کے تحت ہوئے ہیں۔ ان الجھنوں کی قیمت بہت بھاری رہی ہے — دہشت گردی کی جنگ میں 80,000 سے زیادہ پاکستانی ہلاک ہوئے، معیشت کو 150 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا، اور پاکستان کی عالمی تصویر خراب ہوئی جبکہ اسے ایک “مشکلات کھڑی کرنے والا ملک” کا لیبل لگایا گیا حالانکہ ایسا ہرگز نہیں تھا۔
دریں اثنا بھارت کا مغربی طاقتوں کے ساتھ اتحاد نے خطے کی حکمت عملی کو تبدیل کرنے کی کوششوں کو تقویت دی ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کو شہریت ترمیمی قانون (CAA) اور کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے جیسے اقدامات کے ذریعے نشانہ بنانا ایک وسیع تر نمونہ ہے جو سرحدوں سے باہر تک پھیلا ہوا ہے۔ میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام، سری لنکا میں ایسٹر بم دھماکوں کے بعد مسلمانوں کو نشانہ بنانا، اور آسام میں بنگالی مسلمانوں کی جدوجہد — یہ سب ایک ایسے جیوپولیٹیکل ماحول کی طرف اشارہ کرتے ہیں جہاں جنوبی ایشیائی مسلمانوں کو اپنی ہی زمین پر دوسرے درجے کے شہری سمجھا جاتا ہے۔
ڈیکولونائزیشن: 1940 کا ادھورا کام
23 مارچ 1940 اس امر کی جانب یاددہانی کرواتا ہے کہ آزادی کبھی بھی حتمی مقصد نہیں تھی — حقیقی معنوں میں خودمختاری ایک ایسا عمل ہے جو اب بھی جاری ہے۔
آج ڈیکولونائزیشن کا مطلب بیرونی جھنڈے اتارنا نہیں ہے؛ اس کا مطلب ان معاشی، فکری اور ثقافتی انحصارات کو ختم کرنا ہے جو اب بھی سابق نوآبادیات کی تعریف کرتے ہیں۔ اس کے لیے اپنے بیانیے کو دوبارہ حاصل کرنا، اپنی معیشتوں کو مضبوط بنانا اور ایک ایسا تعلیمی نظام بنانا ضروری ہے جو مقامی علم کو غیرملکی نظریات پر ترجیح دے۔
قراردادِ لاہور سے بننے والا پاکستان اس عمل میں ایک خاص کردار ادا کر سکتا ہے۔ اسے معاشی طور پر خود کفیل بنان چاہیے، مغربی مالیاتی اداروں پر انحصار کم کرنے کے لیے علاقائی تجارت کو مضبوط بنانا اور مقامی صنعتوں میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔ اسے اپنے فکری میدان کو دوبارہ حاصل کرنا چاہیے، عالمی بیانیوں کو چیلنج کرنے والی علمی تخلیق کر کے، نہ کہ صرف انہیں بنا سوچے سمجھے اپنا کر۔ اور سب سے اہم یہ ہے کہ اسے اپنی ثقافتی اور نظریاتی بنیادوں کا تحفظ کرنا چاہیے تاکہ 1940 میں جو شناخت تصور کی گئی تھی وہ نئے نوآبادیاتی اثرات سے کمزور نہ پڑے۔
23 مارچ 1940 سے 23 مارچ 2025 تک: ایک جہدِ مسلسل
قراردادِ لاہور جو 23 مارچ 1940 کو منظور ہوئی، صرف ایک ملک بنانے کے بارے میں نہیں تھی؛ یہ ایک تہذیب کو بچانے کے بارے میں تھی۔ یہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے تھی کہ جنوبی ایشیا کے مسلمان عزت کے ساتھ رہ سکیں، بیرونی غلامی سے آزاد۔ آج، جب پاکستان ایک اور 23 مارچ مناتا ہے، سوال یہ ہے: کیا ہم واقعی آزاد ہو گئے ہیں، یا ہم نے صرف غلامی کی ایک شکل کو دوسری سے بدل دیا ہے؟
خودمختاری کی جنگ اب تلواروں اور معاہدوں سے نہیں لڑی جاتی؛ یہ کلاس رومز میں، ٹی وی اسکرینز پر، بورڈ رومز میں اور اقتدار کے گلیاروں میں لڑی جاتی ہے۔ جدوجہد جاری ہے — صرف پاکستان کے لیے نہیں بلکہ پورے جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے لیے۔ اور جیسا کہ 1940 میں تھا، جواب صرف تقریبات منانے میں نہیں بلکہ فعال مزاحمت میں ہے۔