Category: سفارت کاری

پاکستان کے مختلف مذاہب کے رہنماؤں نے اے پی ایس سانحہ کے 11 سال مکمل ہونے پر شہدا کو خراج تحسین پیش کیا اور انتہا پسندی و دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ریاست پاکستان کے ساتھ مکمل تعاون کا اعلان کیا

اہم نکتہ یہ ہے کہ جنگ صرف نقشوں، چارٹس اور اعلیٰ ہیڈکوارٹرز سے نہیں جیتی جاتی۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جنگ کا میدان غیر یقینی، افراتفری اور انسانی کمزوریوں سے بھرا ہوتا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی، سیٹلائٹس اور ڈیجیٹل کمانڈ سسٹمز کے باوجود “جنگ کی دھند” ختم نہیں ہو سکی۔ روس-یوکرین جنگ اس کی تازہ مثال ہے، جہاں جدید نظام جام ہو گئے اور پرانے طریقے دوبارہ اختیار کرنا پڑے۔

مدرسہ فاطمہ اپنے عہد میں بھی آج کی کسی جدید یونیورسٹی سے کم نہ تھا۔ دنیا بھر سے مذہب اور زبان کی قید سے بالاتر ہو کر لوگ یہاں آتے تھے، اور اس دور میں بھی فلکیات، طب اور دیگر جدید علوم یہاں پڑھائے جاتے تھے۔ برصغیر پر انگریز کے تسلط کے بعد بھی مدارس نے علم و شعور کے چراغ روشن رکھے۔ پاکستان میں بھی مدارس کی ایک مضبوط روایت موجود ہے۔

دنیا کا ہر والد یہ چاہتا ہے کہ اپنے حصے کے غم، تکالیف اورصدمے اپنی اولاد کو ورثے میں نہ دئیے جائیں۔ بعض سانحے مگر ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے زخم اور ان سے رستا لہو، ان کی تکلیف اور اس المناک تجربے سے حاصل کردہ سبق ہماری اگلی نسلوں کو بھی منتقل ہونے چاہئیں۔ یہ اس لئے کہ وہ ماضی سے سبق سیکھیں اور اپنے حال اور مستقبل کو خوشگوار، سنہری اور روشن بنا سکیں۔ سولہ دسمبر اکہتر بھی ایسا ہی ایک سبق ہے۔

نوے ژوند ادبی، ثقافتی اور فلاحی تنظیم اسلام آباد کے زیرِ اہتمام اے پی ایس شہداء کو سلام ادب، شمع اور عزمِ امن کے ساتھ 11ویں برسی پر پروقار مشاعرہ و شمع افروزی

سقوطِ ڈھاکہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ریاست کی اصل طاقت بندوق نہیں، بلکہ آئین، پارلیمان، عوامی مینڈیٹ اور مساوی شہری حقوق ہوتے ہیں۔ جب سیاست کو دبایا جاتا ہے تو تاریخ خود کو دہرانے لگتی ہے۔ یہ سانحہ ہمیں خبردار کرتا ہے کہ اگر ہم نے ماضی سے سیکھنے کے بجائے اسے فراموش کر دیا تو زخم بھرنے کے بجائے مزید گہرے ہو سکتے ہیں۔

ذبیح اللہ مجاہد نے 31 اکتوبر کو خیبر ٹی وی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ پاکستان کی جانب سے طورخم اور چمن جیسے اہم تجارتی راستوں کی عارضی بندش نے دونوں ممالک کے تاجروں کو نقصان پہنچایا ہے، اور "تجارت کو سیاست کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔"

اسلامی امارت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے حال ہی میں ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ استنبول مذاکرات کے دوران افغان فریق نے پاکستان کو پیشکش کی تھی کہ وہ ان افراد کو ملک بدر کرنے کے لیے تیار ہیں جنہیں اسلام آباد سکیورٹی کے لیے خطرہ سمجھتا ہے، مگر پاکستان نے یہ پیشکش قبول نہیں کی۔

ترکیہ کی وزارتِ خارجہ نے مذاکرات کے اختتام پر جاری بیان میں کہا کہ پانچ روزہ مذاکرات 25 سے 30 اکتوبر 2025 تک استنبول میں منعقد ہوئے، جن کا مقصد 18 اور 19 اکتوبر کو دوحہ میں طے پانے والی جنگ بندی کو مضبوط بنانا تھا۔

وفاقی وزیر عطا تارڑ کے مطابق پاکستان کے پیش کردہ شواہد مضبوط اور ناقابلِ تردید تھے مگر افغان وفد نے الزام تراشی اور عدمِ سنجیدگی کا رویہ اپنائے رکھا

استنبول مذاکرات میں پاکستانی وفد نے امن و امان سے متعلق اہم مطالبات پیش کیے لیکن طالبان وفد کی جانب سے مثبت پیش رفت اور سنجیدگی نہ ہونے کے باعث مذاکرات بغیر کسی نتیجہ کے روک دیے گئے

ایچ ٹی این کے باخبر ذرائع کے مطابق مذکورہ معاہدہ دس نکاتی فریم ورک پر مشتمل ہے جس کا اعلان آج شام تک متوقع ہے

پاکستانی حکام کے مطابق اسلام آباد کا مؤقف بالکل واضح اور اصولی ہے۔ پاکستان نے افغان سرزمین سے سرگرم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے خلاف قابلِ تصدیق کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔

افغان وفد کی قیادت نجيب حقانی کر رہے ہیں، جو جنرل ڈائریکٹوریٹ آف انٹیلی جنس کے سینئر رکن ہیں اور سراج الدین حقانی کی نگرانی میں سرحدی معاملات کے بعض امور دیکھ رہے ہیں۔

دونوں رہنماؤں کے درمیان غزہ جنگ بندی اور فلسطینی ریاست کے قیام پر تفصیلی مشاورت کرنے پر اتفاق

قطر کی سرکاری نیوز ایجنسی کے مطابق مردف القاشوطی اس سے قبل کابل میں قطری سفارت خانے میں چارج ڈی افیئرز کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے۔