حکام کے مطابق یہ ایک زیرِ تفتیش معاملہ ہے، اور جیسے ہی مستند معلومات دستیاب ہوں گی، انہیں سرکاری طور پر جاری کیا جائے گا۔ اس مرحلے پر کسی فرد، قومیت یا مذہب کو بغیر تصدیق کے حملے سے جوڑنا نہ صرف غلط بلکہ گمراہ کن بھی قرار دیا جا رہا ہے۔
پاکستان نے بھی بونڈائی بیچ پر ہونے والے دہشت گرد حملے پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔ وزیر داخلہ محسن نقوی نے ایک بیان میں کہا کہ پاکستان اس دہشت گردی کے واقعے سے شدید رنجیدہ ہے اور آسٹریلیا کی حکومت، عوام اور بالخصوص زخمیوں کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کرتا ہے۔
آئی ایس پی آر کے مطابق علاقوں میں کلیئرنس اور سرچ آپریشنز جاری ہیں تاکہ کسی بھی باقی ماندہ بھارتی سرپرستی میں سرگرم خوارج کا خاتمہ یقینی بنایا جا سکے۔ بیان میں واضح کیا گیا کہ سکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے ادارے دہشت گردی کے خلاف اپنی بھرپور مہم جاری رکھیں گے۔
پاکستانی مؤقف کے مطابق اسلام آباد آئندہ بھی دہشت گردی کے خلاف علاقائی تعاون، مکالمے پر مبنی حل اور مشترکہ سکیورٹی فریم ورک کی حمایت جاری رکھے گا۔ تہران اجلاس میں پاکستان کی فعال شرکت اور طالبان کی عدم موجودگی کے درمیان واضح فرق نے ایک بار پھر پاکستان کے تعمیری کردار اور کابل کی ہچکچاہٹ کو نمایاں کر دیا ہے، جو خطے میں امن و استحکام کے مستقبل پر گہرے اثرات مرتب کر سکتی ہے۔
شہاب اللہ یوسفزئی کے مطابق “بین الاقوامی قانون میں تشدد کا تعین صرف الزامات سے نہیں ہوتا بلکہ آزاد معائنہ، میڈیکل اسیسمنٹ اور عدالتی جانچ لازم ہوتی ہے، جو اس بیان میں موجود نہیں۔”
یہاں سوال انسانی حقوق کے انکار کا نہیں، بلکہ احتساب، تصدیق اور طریقۂ کار کا ہے۔ جب تشدد جیسے سنگین قانونی تصورات کو بغیر عدالتی یا تحقیقی بنیاد کے استعمال کیا جائے تو یہ نہ صرف قانونی معنویت کو کمزور کرتا ہے بلکہ انسانی حقوق کے عالمی نظام کی ساکھ کو بھی متاثر کرتا ہے۔
یہاں سوال انسانی حقوق کے انکار کا نہیں، بلکہ احتساب، تصدیق اور طریقۂ کار کا ہے۔ جب تشدد جیسے سنگین قانونی تصورات کو بغیر عدالتی یا تحقیقی بنیاد کے استعمال کیا جائے تو یہ نہ صرف قانونی معنویت کو کمزور کرتا ہے بلکہ انسانی حقوق کے عالمی نظام کی ساکھ کو بھی متاثر کرتا ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں کچھ شخصیات ایسی ہیں جو کسی ایک جماعت، دور یا ادارے کی نہیں بلکہ پوری قوم کی مشترکہ متاع ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر سلطان بشیر محمود (ستارۂ امتیاز) انہی ناموں میں شامل ہیں۔ وہ محض ایک ایٹمی سائنس دان نہیں بلکہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے ان بنیاد گزاروں میں سے ہیں جن کی دہائیوں پر محیط خاموش، مسلسل اور بے مثال محنت نے پاکستان کو ناقابلِ تسخیر بنایا۔
آج کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ کابل انتظامیہ پرانی راہیں چھوڑ کر نئی پگڈنڈیوں کی تلاش میں ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ نئی راہیں افغانستان کو حقیقی استحکام اور ترقی کی نئی منزل تک پہنچا سکیں گی؟ یہ وہ سوال ہے جو ہر سیاسی طالب علم اور تجزیہ کار کے ذہن میں ابھر رہا ہے۔
وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کی این ایف سی اجلاس میں بھرپور شرکت اس امر کا اشارہ ہے کہ صوبائی حکومت آئینی راستہ اختیار کرتے ہوئے اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ پی ٹی آئی کی داخلی سیاست اپنی جگہ، مگر ساڑھے چار کروڑ عوام امن، روزگار اور استحکام چاہتے ہیں اور یہی وہ چیلنج ہے جس پر وزیراعلیٰ کا اصل امتحان شروع ہوتا ہے۔
مستقل ریلیف کے لیے ضروری ہے کہ حکومت توانائی کے شعبے کی جامع اصلاحات کرے۔ مقامی ذرائع سے بجلی کی پیداوار، لائن لاسز پر قابو، بجلی چوری میں کمی اور کیپسٹی پیمنٹس کے بوجھ میں کمی، یہی وہ عناصر ہیں جو بجلی کو مستقل طور پر سستا بنا سکتے ہیں۔
تحقیقات بتاتی ہیں کہ جب ماں ذہنی دباؤ کا شکار ہو تو بچوں کی غذائیت براہِ راست متاثر ہوتی ہے۔ کئی جائزوں میں دیکھا گیا کہ جہاں ماؤں میں پریشانی یا ڈپریشن زیادہ تھا وہاں بچوں میں کمزوری، وزن میں کمی اور اسہال جیسی بیماریوں کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔
اگر طالبان واقعی پشتونولی کے وارث بننا چاہتے ہیں، تو انہیں سب سے پہلے اس روایت کے بنیادی اصول پر واپس آنا ہوگا: اپنے مہمان کو اسلحہ نہ پکڑائیں، اپنے پڑوسی پر حملہ نہ کروائیں، اور اس مقدس کوڈ کو سیاسی ہتھیار بنانے کے بجائے اسے امن، بھائی چارے اور انصاف کا ذریعہ بنائیں۔
اقوام متحدہ کی مانیٹرنگ رپورٹس، کوارٹرلی جائزوں اور سگار کی رپورٹس مسلسل اس جانب اشارہ کر رہی ہیں کہ افغانستان میں دہشت گرد تنظیموں کی سرگرمیوں میں نمایاں اضافہ ہو رہا ہے۔ ان رپورٹس کے مطابق داعش خراسان، القاعدہ، تحریک طالبان پاکستان اور وسطی ایشیا سے تعلق رکھنے والے متعدد گروہ افغانستان میں نہ صرف مضبوط ہو رہے ہیں بلکہ اپنی سرگرمیوں کو خطے سے باہر تک پھیلا رہے ہیں۔
حضرت مولانا رومی کی وفات یا وصال کے موقع پر تو نیہ میں مسلمانوں، مسیحیوں، یہودیوں اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں کا مشترکہ طور پر حاضر ہونا اور نماز جنازہ میں شرکت کرنا ان سے محبت اور احترام کا اظہار اور اس بات کی علامت ہے کہ وہ انسانیت کو متحد کرنے والے ایک عظیم شخصیت تھے۔
پاکستان گزشتہ دو دہائیوں میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 94 ہزار سے زائد قیمتی جانیں قربان کر چکا ہے۔ اس کے باوجود بعض جماعتیں پروپیگنڈے کے لیے استعمال ہو رہی ہیں