حالیہ دنوں میں بعض پشتون قوم پرست اور انارکسٹ حلقوں کی جانب سے یہ الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ ریاست دہشت گردی کے خلاف اقدامات کو جواز فراہم کرنے کے لیے “اچھے اور برے طالبان” کی تفریق پیدا کر رہی ہے۔
ماہرین کے مطابق یہ بیانیہ دراصل انسداد دہشت گردی کے موجودہ آپریشنز کو کمزور کرنے کی ایک کوشش ہے۔ سیکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ ماضی میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے دور میں بعض شدت پسند عناصر کو خیبر پختونخوا میں دوبارہ آباد ہونے کی اجازت دی گئی، تاہم اس وقت ان حلقوں کی جانب سے اس پالیسی پر کوئی کھلا اعتراض سامنے نہیں آیا۔
ماہرین کے مطابق حالیہ تنقید کرنے والے وہی سیاسی و فکری دھڑے ہیں جو ماضی میں ان پالیسیوں کا حصہ رہے یا خاموش تماشائی بنے رہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے واقعات پر خاموشی اور سیکیورٹی فورسز کے اقدامات کی مخالفت ایک غیر جانبدارانہ رویہ نہیں بلکہ اس سے دہشت گرد عناصر کو بالواسطہ فائدہ پہنچ سکتا ہے۔
ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایسے بیانیے نہ تو امن کے قیام میں مددگار ثابت ہوتے ہیں اور نہ ہی ریاست کی ساکھ کو مضبوط بناتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف تمام قومی اقدامات کی غیر مشروط حمایت کی جائے تاکہ شہریوں اور سیکیورٹی اہلکاروں کی جانوں کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔
دیکھیں: کرک میں دہشتگردوں کا سکیورٹی اہلکاروں پر حملہ، تین اہلکار شہید