اسرائیلی فوجی طیاروں نے غزہ پر بمباری کرتے ہوئے خان یونس اور شمالی غزہ کے مختلف علاقوں پر شدید بمباری کی، حالانکہ اسرائیل نے چند روز قبل جنگ بندی کے دوبارہ نفاذ کا اعلان کیا تھا۔
غزہ کے باسیوں کا کہنا ہے کہ وہ شدید خطرات میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جبکہ خوراک، پینے کے صاف پانی اور محفوظ پناہ گاہوں کی شدید قلت نے ان کی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔
اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق غزہ جنگ بندی کے اعلان کے باوجود امداد کے حوالے سے مسائل تاحال برقرار ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اگرچہ امدادی سامان کی ترسیل میں آسانی ہوئی ہے لیکن محدود حد تک رسائی کے باعث ابھی بھی انسانی خوارک کی فراہمی میں شدید مشکلات و قلّت کا سامنا ہے۔ حالیہ اعداد و شمار کے مطابق 36 ہسپتالوں میں سے محض 14 ہسپتال کام کر رہے ہیں جبکہ اکتوبر 2023 سے اب تک 1,700 سے زائد طبی عملہ ہلاک ہو چکے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق میڈیکل ٹیمیں زخمیوں کی منتقلی میں مصروف عمل ہیں، مگر مریضوں کی کثیر تعداد اور غذائی قلّت کے باعث لاکھوں جانیں سنگین خطرات سے دوچار ہیں۔
اسی طرح غزہ میں واقع ناصر میڈیکل کمپلیکس کی انتظامیہ کے مطابق اسرائیلی فوج نے مزید 30 فلسطینی قیدیوں کی لاشیں واپس کی ہیں۔ مذکورہ اقدام رواں ماہ کے آغاز میں طے پانے معاہدے کے تحت کیا گیا ہے۔
اسی طرح مقبوضہ مغربی کنارے میں بھی صورت حال کشیدہ ہے۔ حالیہ ایّام میں زیتون کی کٹائی کے موقع پر فلسطینی کسانوں پر حملوں میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے۔ مقامی خبر رساں اداروں کے مطابق اکتوبر کے پہلے تین ہفتوں میں 126 حملے کیے گئے، جن میں 4,000 سے زائد زیتون کے درخت جلائے اور کم از کم 17 فلسطینی زخمی ہوئے۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ نئی یہودی آبادکار وں نے فلسطینی کسانوں کے لیے اپنی ہی زمینوں تک رسائی کو مشکل بنا دیا ہے، حتیٰ کہ وہ علاقے اور راستے بھی اب غیر محفوظ ہو چکے ہیں جہاں پہلے فلسطینیوں کی آزادانہ آمد و رفت تھی۔
دیکھیں: نیتن یاہو کے حکم کے بعد اسرائیلی طیاروں کی غزہ پر بمباری، متعدد فلسطینی شہید
 
								 
								 
								 
								 
								 
								 
								