عمران خان قانونی کیس پر امریکی رکنِ کانگریس جو ولسن کی جانب سے دیے گئے حالیہ بیان نے پاکستان میں شدید ردعمل کو جنم دیا ہے۔ ولسن نے لندن میں عمران خان کے بیٹوں سے ملاقات کے بعد ان کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا، جسے پاکستان میں عدالتی خودمختاری پر اثر انداز ہونے کی کوشش قرار دیا جا رہا ہے۔
پاکستانی حکام اور قانونی ماہرین نے سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے واضح کیا کہ عمران خان قانونی کیس آئینی اور عدالتی دائرہ کار میں زیرِ سماعت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بیرونی سیاست دانوں کے ایسے بیانات پاکستان کے داخلی نظامِ انصاف میں غیر ضروری مداخلت کے مترادف ہیں۔
وزارتِ قانون کے ایک سینئر رکن نے کہا، “پاکستانی عدالتیں شفاف طریقے سے کارروائی کر رہی ہیں، اور ایسے بیانات صرف اداروں کو سیاسی بنانے کی کوشش ہے۔”
جو ولسن کے بیان کو سیاسی دباؤ اور پراپیگنڈا کا حصہ سمجھا جا رہا ہے، جس سے نہ صرف پاکستان کی داخلی خودمختاری متاثر ہو سکتی ہے بلکہ عوامی اعتماد پر بھی منفی اثر پڑ سکتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے بیانات آئندہ ایک خطرناک مثال قائم کر سکتے ہیں، جہاں بین الاقوامی دباؤ عدالتی فیصلوں پر اثرانداز ہونے کی کوشش کرے گا۔
سیاسی تجزیہ کار ڈاکٹر فیصل رحمان کے مطابق، “ایسے اقدامات عالمی اصولِ عدم مداخلت کے خلاف ہیں اور خود مختار ریاستوں کے عدالتی عمل کے لیے خطرہ ہیں۔”
دیکھیں: افغان حکومت کا ٹی ٹی پی کو غیر مسلح کرنے اور مختلف شہروں میں بسانے کا فیصلہ